کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 139
ثانیا : وہ خود اس نا م کو نہیں کہلواتے تھے بلکہ یہ لقب ان کا پڑ گیا تھا اور اس لقب پڑنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے موصوف خود ہی نقل کر چکےہیں ، اس کے باوجود عاجزی کی بنیادپر سگ کہلوانے کے لئے اسے پیش کرنا عجیب در عجیب ہے۔
تنبیہ :مذکور صحابی کا ذکر صحیح بخاری کتاب الحدود ، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر، و انہ لیس بخارج من الملۃ (حدیث نمبر:6780) میں مذکور ہے۔یہ لقب قطعاً صحابی کی تنقیص کا سبب نہیں بن سکتا، اور نہ ہی سگ جیسے لقب کے لئے دلیل بن سکتا ہے۔کیونکہ ایک مسلمہ قاعدہ ناموں کے بارے میں یہ ہے کہ جب کوئی نام کسی کا پڑ جائے تو اس میں معنی کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس نام کو بس ایک نام کے طور پر ہی استعمال کیا جائے گا۔ورنہ ایسی کتنی ہی مشہور شخصیات ،جگہوں اور شہروں کے نام پیش کئے جاسکتے ہیں کہ جن کے ناموں میں کوئی معنویت نہیں اور ان کا جب بھی نام لیا جاتا ہے بطور نام کے ہی لیا جاتا ہے نہ کہ اس کے معنی کو شامل حال رکھا جاتا ہے۔اس صحابی کو ان کے اسی لقب سے بھی اگر کوئی یاد کرے گاتو وہ بطور ایک نام کے یاد کرے گا نہ کہ اس کے معنی کو ملحوظ خاطر رکھے۔اس تفصیل کے بعد اس لقب سے استدلال کرتے ہوئے سگ کا لقب رکھناقطعاً جائز نہیں ہوسکتا، جس میں نام یا لقب رکھتے وقت معنی اور مخصوص پس منظر شامل حال ہے۔
شبہ نمبر 12
’’صحابہ کرام کی عاجزیاں ‘‘کے عنوان کے تحت صحابہ کی عاجزیوں کی مثالیں دے کر اپنے مزعومہ فلسفے کو ثابت کیا گیا۔[1]
تبصرہ :
موصوف نے اس عنوان کے تحت سعی لا حاصل کرتے ہوئے بعض صحابہ کا یہ کہنا کہ ’’کاش میں پرندہ ہوتا‘‘،’’ کاش ! میری ماں نے مجھ کو نہ جنا ہوتا‘‘ ، ’’کاش! میں پھل دار پیڑ ہوتا‘‘ ،’’ کاش میں انسان نہ ہوتا‘‘ ،’’ کاش ! میں بھیڑ کا بچہ ہوتا ‘‘،’’ کاش! میں راکھ ہوتا‘‘ ،’’ کاش میں درخت کا پتا ہوتا ‘‘،’’کاش میں دنبہ ہوتا‘‘ ذکر کیا ہے ۔اور اپنے تئیں جو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم بھی عاجزی کے طور پر کتا
[1] بیانات عطاریہ حصہ سوم:539تا546