کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 138
ثالثا ً: یہاں اونٹ کہنے میں جو تشبیہ کی علت ہے وہ بھی واضح ہے کہ صحابی نے سامان اٹھایا اس وجہ سے یہ کہا۔جبکہ کتا کہلوانا کس تشبیہ کی بنیاد پر ہے ؟ شبہ نمبر 11 ’’ایک صحابی کا لقب حمار تھا ۔‘‘[1] تبصرہ : قبل اس کے کہ اس پرہم کوئی تبصرہ کریں ، موصوف نے جو نزہۃ القاری کے حوالے سے لکھا ہے، وہ ملاحظہ کریں ۔ ’’کسی کا برا لقب رکھنا منع ہے ارشاد ہے :﴿ ٰوَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ﴾ترجمہ کنز الایمان : اور ایک دوسر ے کے برے نام نہ رکھو ۔(پ 26الحجرات:11) پھر ان کا لقب اس عہد مبارک میں کیسے حمار تھا ؟ برا لقب رکھنا ایذا اور اہانت (یعنی توہین)کا سبب ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی اس قسم کے نام کسی خاص وجہ سے لوگوں کو پیارے ہوجاتے ہیں مثلا کسی دینی بزرگ نے یہ لقب رکھ دیا جیسے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو تراب (یعنی مٹی والا ) رکھا ۔ ظاہر ہے کہ لغوی اعتبار سے یہ جملہ توہین کا ہے لیکن حضرت علی کو یہ نام سب سے زیادہ پسند تھا اسی قبیل (قسم)سے ابو ہریرہ (یعنی چھوٹی سی بلی والا)ہے۔ ذات النطاقین (یعنی دو کمر بند والی )عرب کے عرف میں توہین کا لفظ تھا لیکن جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ذات النطاقین (یعنی دو کمر بند والی )کہہ دیا یہ ان کےلئے سرمایٔہ افتخار ہوگیا ۔اسی طرح امکان ہے کہ ہو سکتا ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان کو حمار فرمادیا یا کسی اور معزز نے حمار کہہ دیا ہو جس کی وجہ سے انہیں یہ نام پسند آگیا ۔ ‘‘[2] اس عبارت کو بغور پڑھا جائے کہ موصوف نے خود تسلیم کیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ نام ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور معزز کے کہنے کی وجہ سے پڑگیا ہوگا ۔اب بتائیے اس صورت میں کیا یہ کتا کہلوانے کیلئے دلیل بن سکتا ہے ۔ ہرگز نہیں ۔
[1] بیانات عطاریہ : صفحہ 537،536 [2] بیانات عطاریہ حصہ سوم : 538،537