کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 131
ہیں ؟ صاحب البیت ادری بما فیہ ۔ صاف ظاہر ہے متبع شیطان کے ۔
لہذا موصوف کی پیش کی گئی دونوں آیتیں :
(1) ﴿ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ۵ۙ ﴾(سورہ والتین: 5)
(2)﴿ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۱۷۹ ﴾(سورۂ اعراف: 179)
کا تعلق قطعا کسی مومن ، صحیح العقیدہ سے نہیں بلکہ یہ آیات تو ان کے لئے ہیں جو کفار ہیں اور شریعت کے فہم سے عاری ہیں ۔
شبہ نمبر 2
’’اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی ممانعت ‘‘اس عنوان کے تحت لکھا : ’’مگر شاید ابھی یہ وسوسہ باقی رہے کہ چلئے کفار جانور بلکہ جانور سے بھی بد تر سہی مگر مسلمان کو تو اپنے منہ سے خود کو کتا وغیرہ نہیں کہنا چاہئے اس ضمن میں عرض ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے آپ کو تواضع کے طور پر کتا کہے یا لکھے تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ‘‘ [1]
تبصرہ :
موصوف نے لکھا کہ تواضع کے طور پر خود کو کتا کہنے یا لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس پر ہماری کچھ گزارشات ہیں :
اولا ً: یہ کہنا کہ شرعا کوئی حرج نہیں اس کی کوئی دلیل نہیں دی گئی ۔
ثانیاً : عاجزی کے طور پر صرف کتا ہی لکھنا کافی ہےیا اس کے ساتھ دیگر جانوروں کے نام سے موسوم ہونا اور نقالی کرنا بھی جائز ہوگا ؟ مثلاً خنزیر ، گدھا ،ریچھ ،بندر ،جراثیم ، بیکٹیریا وغیرہ ۔
جب خود کو کتا کہلوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تو پھر یہ باقی ناموں پر بھی عمل کرنے میں یقیناً انہیں تامل نہیں ہوگا۔
ثالثا ً: سورہ نجم کی آیت﴿ فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ﴾(نجم : 32)
جس کا ترجمہ احمد رضا بریلوی صاحب نے بھی یہی کیا ہے کہ’’ تو آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ۔‘‘
اب اس آیت سے کہاں یہ ثابت ہوتا ہے ؟کہ انسان خود کو جانور کہے اور پھر جانوروں میں سے بھی ایسے
[1] بیانات عطاریہ حصہ سوم : 529،528