کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 130
اسی مکتب فکر کی ایک تنظیم کے بانی الیاس قادری نے خود کو سگ (کتا )کہلوانے کے لئے ایک مستقل خطاب بعنوان ’’سگ مدینہ کہلوانا کیسا؟ ‘‘ دیا ہے جو بیانات عطاریہ حصہ سوم میں درج ہے ۔ اس میں جس طرح سے شرعی نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے، ہم اس کی حقیقت کو عوام الناس کی عدالت میں پیش کیے دیتے ہیں ۔تا کہ عوام الناس خود ایسے القابات کے استعمال سے نہ کہ صرف محفوظ رہیں اور انسان بلکہ مسلمان کی صحیح عزت و حرمت کی اہمیت کو بھی سمجھ سکیں کہ اس طرح کے کلمات و القابات یقیناً ایک شرعی خلاف ورزی بلکہ انسانی عظمت و شرف کے خلاف ہیں ۔ چند شبہات اور ان کا ازالہ : شبہ نمبر 1: موصوف لکھتے ہیں : ’’میٹھے میٹھےاسلامی بھائیوں وسوسہ یہ ہے کہ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لئے اس کو کسی جانور سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ جو انسان اللہ رحمن عز و جل کا نافرمان اور متبع شیطان ہے وہ یقینا بد تر از حیوان ہے ۔‘‘ [1] پھر آیت یہ پیش کی : ﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ۝ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ﴾(سورۃالتین: 5) یعنی : بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا،پھر اسے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا ۔ تبصرہ : اس استدلال پر مزید کیا تبصرہ کیا جائے ؟بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس عبارت کو بغور پڑھ کر کوئی بھی با شعور صاحب فہم و فراست شخص یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ موصوف نے یہاں لکھا ہے کہ’’جو انسان اللہ رحمن عز و جل کا نافرمان اور متبع شیطان ہے وہ یقینا بد تر از حیوان ہے ۔‘‘ اورجبکہ خود کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلوانے کے ساتھ ساتھ سگ (کتا)بھی کہلواتے ہیں ۔ یعنی ایک طرف خود کہہ رہے ہیں ۔’’ متبع شیطان بد تر از حیوان ‘‘ اور دوسری طرف خود کو سگ (کتا)کہلوانا!! آخر موصوف اور انکے ہم نوا خود کو کس زمرے میں شامل کر رہے
[1] بیانات عطاریہ حصہ سوم : 526