کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 13
صحابہ کے نام سے صحیفے مشہور ومعروف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لکھا کرتے تھے ۔ احادیث کی تیسری قسم : جو صحابہ مجلس برخاست ہونے کے بعد لکھا کرتے تھے اس کی بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ اس میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا مجموعہ احادیث واضح مثال ہے ۔ بلکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ تو اپنے بچوں کو بھی لکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے :[يابنيّ قيّدوا هذا العلم ] ’’میرے بیٹو اس علم کو ضبطِ تحریر میں لاؤ ۔‘‘ جناب ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے اپنی کتاب :’’دراسات في الحدیث النبوي وتاریخ تدوينه ‘‘ میں تقریبا پچاس سے زائد ان صحابہ کرام کے نام ذکر کئے ہیں جنہوں نے حدیث کو تحریر بھی کیا اور یاد بھی اور ان سے آگے ان کے شاگردوں نے بھی ان سے لکھا اور آگے پہنچایا ۔[1] صحابہ کے بعد تابعین کی دور میں حفاظت حدیث کیلئے جانفشانی سے محنت کی گئی ۔ جس میں حفظِ حدیث ، کتابتِ حدیث ، روایتِ حدیث اور طلب ِحدیث کے لئے رحلت کی نادر ونایاب مثالیں موجود ہیں جن کو عقل انسانی سمجھنے سے قاصر ہوجاتی ہے ۔ یہ ان کاوشوں کا ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ، کتنی عمریں اس میں فنا ہوئیں ، کتنے وسائل خرچ ہوئے ، کتنی کتابیں تحریر کی گئیں ، علم الرجال اور تراجم رواۃ کی کتابوں پر نظر ڈالی جائے تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ آج جو ڈیٹا کمپیوٹر محفوظ کرتا ہے وہ کام ان لوگوں کی عقلیں کیا کرتی تھیں ۔ الغرض : رہبرانِ دین وملّت کے سوانح اور سیرت مختلف انداز سے قلم بند ہوتے رہتے ہیں ۔ ان میں جو برتری نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اس میں کوئی آپ کا حریف نہ نکلا ۔ تاریخی ہیرو کے مولد ومسکن، سنہ ولادت اور مشہور وغیر مشہور ہر قسم کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے لیکن جو انداز رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی
[1] دیکھئے دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ ج 1 ص 92 تا142نیز اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تابعین کا اور ان کے شاگردوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے تفصیل کیلئے مذکورہ کتاب ملاحظہ کیجئے ۔