کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 125
شوہر کے سامنے بہو کبھی بھی اپنی ساس کی شکایت نہ کرے :
شوہر کے سامنے بہو کبھی بھی اپنی ساس کی شکایت نہ کرے کیوں کہ شوہر والدہ کو بدل نہیں سکتا کہ دوسری والدہ لے آئے ۔لہٰذا نیک بیوی کو چاہئے کہ سا س کے رو یئے پر صبرکرے اور یہ سوچے کہ اس نے خود بھی ایک نہ ایک دن ساس بننا ہے۔
اس لئے اگر میں تھوڑا سا صبر کرلوں گی اور ان کی خدمت کر کے جو دعاملے گی وہ میرے لئے دنیا و آخرت میں انعام دلانے والی ہوگی ۔
اپنی والدہ کا تصور کر کے یہ سو چے کہ اگر میں اپنے شوہر کی والدہ کا خیال نہیں رکھوں گی تو میری بھابھیاں بھی میری والدہ کے ساتھ ایسا ہی کریں گی اس لئے کہ اصول ہے" کماتدین تدان " جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
تیسری بات یہ سو چے کہ میں بھی ایک دن بوڑھی ہونے والی ہوں ۔ اگر آج میں نے ساس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تو کل میری بہو بھی میرے ساتھ ایساہی کرے گی ۔
لہٰذا اگر آپ کے شوہر کی سا س کے اکیلے بیٹے ہیں یا دوسرے بھائیوں نے والدہ کو ساتھ نہیں رکھا تو آپ اس ثواب سے بھی محروم نہ رہیے اور اپنے شوہرکو کبھی مجبور نہ کیجئے کہ وہ والدہ کو الگ رکھے ہاں اگر بالکل ہی نہ بنتی ہو اور دونوں کی دین و دنیا خرا ب و بر باد ہورہی ہو اور اس نئی نسل(اولاد ) کی زندگی بھی بر باد ہورہی ہو تو سمجھ رکھنے کیلئے ان باتو ں کا ضرورخیال رکھے :
(۱) شوہر کو سمجھائے کہ والدہ کے سامنے میری طرف زیادہ تو جہ نہ دیجئے بلکہ والدہ کی طرف زیادہ توجہ دیجئے کہیں والدہ کو ہلکا سا خیال بھی نہ گزرجائے کہ یہ مجھے چھوڑ کر بیوی کی طرف زیادہ تو جہ کرتاہے ۔
( ۲) اگر گاڑی میں کہیں جائیں اور والدہ بھی ساتھ ہوں تو شوہر سے کہئے کہ والدہ کو آگے بٹھائیں ۔
(۳) شوہر سے کہیں کہ آپ کبھی کوئی کپڑے وٖغیرہ لائیں توپہلے والدہ کو دیجئے جو ان کو زیادہ اچھا لگے وہ ان کو دے دیں جو وہ مجھے اپنی خوشی سے دے دیں گی میں لے لوں گی ۔
( ۴ ) کبھی شوہر کے ساتھ باہرجائیں تو ساس کو اکیلے گھر نہ چھوڑکر جائیں (ہاں اگر ساس اسی میں خوش ہیں کہ اکیلی رہیں تو کوئی حرج نہیں ) اگر رشتہ داروں سے ملنے کیلئے یاتفریح کیلئے میاں بیوی گئے اور والدہ یعنی ساس کو اکیلی چھوڑ کرگئے خصوصا جب کہ سسر کا بھی انتقال ہوگیا ہو تو اس صورت میں والدہ کے دل