کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 124
پیش آؤ۔ حدیث شریف میں آیا ہے :’’جو شخص بڑوں کا ادب نہیں کرے اور چھوٹوں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں (اس کا ہم سے تعلق نہیں ) ۔[1] ہمارےرسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو بچوں کے ساتھ بہت محبت تھی بعض عورتیں جن کو بچوں سے محبت ہوتی ہے بچے کو اس بہانے سے بلاتی ہیں کہ آؤ ہم تمہیں ایک چیز دیں گی اور کوئی چیز دینے کا ارادہ نہیں ہو تا صرف بلانا مقصود ہو تا ہے لیکن ایسا کہنا ایک قسم کا جھوٹ ہے ایسا مت کرو ۔ایک مرتبہ ایک عورت نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بچے کو کچھ دینے کو کہہ کر بلایا مگر اس نے خالی بہکایا نہ تھا بلکہ کوئی چیز اس کو دی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس کو یہ چیز نہ دیتیں تو جھوٹ ہو جاتا ۔[2] مولانا شفیق الرحمن خان بستوی نے حقِ بہو کچھ اس طرح تحریر کیاہے : مولانا صاحب فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں بہو کا سسرال کے ہاں کچھ مقام نہیں تھا اسلام نے اسے مقام دیا اور احترم بھی دیا ہے مولانا صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ زمانہ جاہلیت کی بر بریت اور اسلام کے مشفقانہ طرز عمل کی اور ہر ایک کے حقوق بیان فرمائے ہیں اسی اثناء میں انہوں نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ سسرال کو چاہئے کہ بہو کو اپنے گھر میں عزت دیں احترام دیں اور ا س کے حقوق کا خیال رکھیں قطعی طور پر کسی بھی حالت میں اسے اپنے ہاں لونڈی تصور نہ کریں ۔[3] مولانا ڈاکٹر عبد الحی عارفی صاحب نے کچھ یوں فرمایاہے بہو کو چا ہئے کہ سسرال والے مردوں سے پردہ کرے اور پردہ دیور جیٹھ سے ضروری ہے اور حق شرع ہے نہ کہ بندوں کا ۔[4]
[1] جامع ترمذي :كتاب البروالصلة باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان [2] سنن أبي داؤد:كتاب الأدب،باب في التشديد في الكذب [3] اصلاح ا لبیوت ، لمولانا شفیق بستوی (حفظہ اللہ ) باب حق بہو ص52 [4] کتاب بنام خواتین کیلئے شرعی احکام