کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 119
کار کوٹھی اس کے پاس ہے لیکن سا س کی وجہ سے بہت پریشان تھی ۔جب اس نے بتایا کہ خاوند اس کے ساتھ بہت اچھا ہے اس سے اسے کوئی شکوہ نہیں تو میں نے اس سے ایک سوال کیا : کیا آپ کو خاوند اور گھراچھالگا ؟ کہنے لگی : جی ہاں ! میں نے پوچھا آپ اس گھر میں کیسے آئیں ؟
کہنے لگی : وہ تو میری ساس میر ے گھر آئی ،مجھے دیکھا اور پسند کیا اورمجھے بیاہ کر لے آئی اس پر میں نے کہا : اس نے تو آپ پراحسان کیا کہ اتنے اچھے گھر میں آپ کو لے آئی جس میں آپ کو خاوند بھی اچھا ملا اس بڑے احسان پر تو آپ کو عمربھر اپنی ساس کا شکر گزار رہنا چاہئے تھا لیکن یہ شکوے کیسے ؟
میں نے کہا : اب بتائیں کہ اتنے بڑے احسان کے مقابلے میں تمہاری یہ باتیں کیسی ہیں ؟ کہنے لگی : آپ نے تومیرامسئلہ حل کردیا اس احسان کے مقا بلے میں تو یہ باتیں واقعی کو ئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں ۔
ساس سے مشورہ لیاجائے
قران کریم میں ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ ﴾ [الشورى: 38]
ترجمہ : ’’ اور ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہو ا کہ مشاورت میں خیر ہے اور اس سے بڑی بڑی دوریاں ختم ، فاصلے کم ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذ ا محترم بہو صاحبہ : اپنے معا ملات میں ساس کو شریک کریں اور اس سے مشاورت لیں اس سے ساس کے دل میں آپ کی قدر بیٹھے گی اور وہ آ پ سے محبت کرے گی ۔
بدگمانی کا شکار نہ ہوں
اللہ تعالیٰ نے بدگمانی سے منع فرمایاہے ترجمہ ملاحظہ کیجئے :’’ اے ایمان والو بچتے رہو بدگمانیا ں کرنے سے کیوں کہ بعض بد گمانیا ں گناہ ہیں اور نہ ہی کسی کو ٹٹولو اور نہ ہی تم میں بعض بعض کی غیبت کرے ۔‘‘ [الحجرات :12]
درج بالاآیت کریمہ کی روشنی میں بہو کیلئے بھی ہدایت ہے کہ وہ اپنی سا س کےبارے میں بدگمان نہ ہو اگر اس کا شوہر اپنی ماں سے محبت کرتاہے یا احترام دیتاہے تو یہ اس پر فرض ہے۔آپ کو چاہئے کہ آپ اس سے بد گمان نہ ہوں اور بات کابتنگڑ مت بنائیے اور عیب مت ٹٹولیں اور غیبت مت کریں ۔