کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 114
4.بہو سسرکے ہاں اپنے شوہر کی شکایت بھی کر سکتی ہے ۔ 5.بہو سسر کے ہاں ازدواجی زندگی سے متعلق بھی باخبر کرسکتی ہے ۔ 6.بہو سسرکے ہاں شوہر کی عدم مباشرت سے متعلق باربا ر شکایت کرسکتی ہے (اس میں کوئی حیا ء نہیں ہے)۔ 7.سسر اپنے بیٹے اور بہو سے متعلق فیصلے کے حوالے سے کسی سر براہ سے فیصلہ بھی کراسکتا ہے ۔ 8.سسر کا اپنے بیٹے کی ازدواجی زندگی میں دخل دینا بھی قابل ممانعت نہیں ہے ۔ 9.قیام اللیل اور روزے کے اندر میانہ روی سے کام لیا جائے ۔ 10.انسان کی آنکھوں کا ،جسم کا ،انسان پر حق ہے ۔ نوٹ : ائمہ کرام نے مزید بھی مسائل بیان کئے ہیں بخشیت طوالت انہی پر اکتفا کیا جاتاہے ۔ بہو اور ساس کے درمیان جھگڑے کی وجوہات بے جاتوقعات کاقائم کرنا سسرال کو خاص طور پر ساس اور سسر کو جان لینا چاہئے کہ ہمارا تعلق بہو کے ساتھ بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ ہے اور وہ واسطہ بیٹے کا ہے یہ رشتہ خونی رشتے کی طرح نہیں ہوتا اور اس میں وہ کشش نہیں ہوتی جو کہ خونی رشتے میں قدرتی طور پر ہوتی ہے۔ یہ رشتہ ایک جملے کی بنیا د پر قائم ہوتاہے اور ایک ہی جملے کی بنیاد پر ٹوٹ بھی سکتا ہے ۔ اور یہ بہت ہی نا زک اور حساس رشتہ ہے اس لئے ساس کو یا سسر کو اپنی بہو سے زیادہ توقعات یاامیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں ۔ میاں بیوی کی محبت سے بد ظن ہونا اس حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ شوہر کےدل میں شادی کے بعد ایک نئی شخصیت داخل ہوجاتی ہے اوروہ اس کی رفیقہ حیات اور ہم سفر ہے ۔والدین جب دیکھتے ہیں کہ بیٹے کی بہو کے ساتھ بہت زیادہ محبت الفت اور پیار ہور ہاہے تو پریشان ہوجا تے ہیں اور گرم جوشی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ اور وہ دونوں یہ تمام تر صورت حال دیکھ کر بہو کو اپنا حریف اور مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ انہیں مان لینا چاہئے کہ یہ محبت فطری ہے اور قانون ِربانی کے عین مطابق ہے جیسا کہ بہت سی قرآنی آیات سے یہ بات ثابت