کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 107
جائے(نہ کہ شرط کرکے بہ جبر) اور جس سے نکاح کا وہ مقصود حاصل ہوجائے جو نکاح سے مطلوب ہوتاہے۔پس جس نے مطلقۂ ثلاثہ عورت سے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ عورت زوج اول کے لیے حلال ہوجائے تو یہ نکاح صورتاً تو نکاح ہے لیکن غیر صحیح نکاح ہے اور اس سے وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی بلکہ یہ ایسی معصیت ہے جس کے مرتکب پر شارع نے لعنت فرمائی ہے اور شارع علیہ السلام کسی ایسے فعل پر لعنت نہیں کرتے جو جائز(مشروع) ہو۔بلکہ ایسے فعل پر بھی لعنت نہیں کرتے جوصرف مکروہ ہی ہو(حرام نہ ہو)۔ جمہور علماء کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ لعنت انہی گناہوں پر آتی ہےجو کبیرہ ہوں اگر اس کا دوبارہ اعادہ کیا جائے تو وہ حرام ہوجاتاہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص خون کو پیشاب سے پاک کرے حالانکہ وہ پلیدی پر پلیدی ہے(وہ پاک کس طرح ہوگا؟)
امام مالک،امام احمد،امام ثوری، اہل ظاہر اور ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد اہل حدیث واہل فقہ میں سے اسی موقف کے قائل ہیں ۔‘‘
علامہ رشید رضا مصری مرتب افادات مزید لکھتے ہیں :
’’ الاستاذ الامام(شیخ عبدہ) نے فرمایا : حلالے والا نکاح، نکاح متعہ سے بھی بدتر ہے اور فساد وعار کے اعتبار سے بھی بہت شدید ہےاور کچھ دوسرے فقہاء جو کہتے ہیں کہ یہ کراہت کے ساتھ جائز ہے جب تک اس میں شرط نہ ہو، اس لیے کہ فیصلہ ظاہر پر ہوتاہے، اس میں کارفرما مقاصد اور پوشیدہ باتوں کو نہیں دیکھا جاتا، تو ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے ، لیکن دین قیم( اسلام) تو یہ ہے کہ ظاہر باطن کا آئینہ دار ہو، ورنہ وہ نفاق ہوگا۔ علاوہ ازیں حلالے کی نیت سے نکاح کرنے والا وہ نکاح حقیقی نہیں کرتا جو اللہ نے مشروع کیا( حکم دیا)ہے۔ اور اسے بیان کیاہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے خود انسان جس طرح چاہے کرلےاور نہ اس شخص کی مرضی پر ہے جو بغرض حلالہ یہ کام کرواتا اور اس پر اس کے ساتھ تعاون کرتاہے۔اگر قاضی لاعلمی کی وجہ سے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ایسے نکاح کے نفاذ کا فیصلہ دے دیتاہے وہ تو معذور گردانا جاسکتاہے لیکن اس کا علم رکھنے والا اور اس کا