کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 105
تحفظ ، چوتھی علت: اسلامی معاشرے سے کرائے کے سانڈوں (زناکاروں ) کا خاتمہ۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں 1. چند راتوں کے لیے طلاق کی شرط کرکے ایک خوبرونوجوان لڑکی کو کسی کے سپرد کردینا، غیرت کے خلاف ہے، کوئی غیرت مند مرد اس کو برداشت کرسکتاہے نہ کوئی غیرت مند عورت، بالخصوص جبکہ وہ جوان بھی ہو اور حسن وجمال میں بھی یکتا۔ اس حکم لعنت میں کارفرما علت اس بے غیرتی کا سد باب ہے۔ جو دین حیاوعفت کی اعلیٰ تعلیمات کا حامل ہو ، وہ حلالۂ ملعونہ جیسی بے غیرتی کو کب برداشت کرسکتاہے؟ 2. تیسری طلاق دینے کا مجرم مرد ہے نہ کہ عورت۔ عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ جرم کی سزا مجرم(مرد) کو ملے نہ عورت کو، جو یکسر بے قصور ہے۔ لیکن حلالۂ ملعونہ میں سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے اور اس کو چند راتیں چاروناچار کسی بوالہوس کے پاس گزارنی پڑتی ہیں اور اگر اس کی نیت خراب ہوجائے اور وہ طلاق دینے سے انکار کر دے ، تو وہ عورت تو پھر عمر بھر اس روگ اور غم میں مبتلا رہے گی کہ اس کی راتیں اس کی پسندیدہ شوہر کے بجائے اس سانڈ کے پہلو میں گزر رہی ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتی اور اس کی تو خدمات عارضی طور پر ایک کرائے دار کی حیثیت سے حاصل کی گئی تھیں ، لیکن وہ میرا مالک بن بیٹھا۔ ذرا تصور کیجیے! ایک غیرت مند عورت کے لیے یہ تصور کس طرح روح فرسا اور اعصاب شکن رہے گا ۔ کیا اسلام اس بے انصافی کا علمبردار ہوسکتاہے؟ علاوہ ازیں اسلام کا حکم ہے کہ عورت کی شادی کرتے وقت اس کی رضامندی بھی حاصل کرو، اور جو شخص اس کو ناپسند ہو وہاں بالجبر اس کا عقد مت کرو۔ حلالۂ ملعونہ میں جو نکاح کا ناٹک رچایا جاتاہے، کیا وہاں اسلام کی اس تعلیم کا کوئی معمولی سا بھی اہتمام کیاجاتاہے؟ وہاں توصرف اپنی خودساختہ شرط منواکر آنکھیں بندکرکے ایک عورت کو ایک مرد کے حوالے کر دیاجاتاہے،چاہے وہ اس کو پسند ہو یا نہ ہو۔ تیسری علت : نسب اور خاندانی نظام کا تحفظ ہے ۔ حلالۂ ملعونہ اس کے یکسر خلاف ہے۔اگر چند راتوں کی ہم بستری سے عورت کو حمل قرار پاجائے۔ توفی الحال اس بحث کو چھوڑ دیجئے کہ یہ اولاد صحیح النسب ہوگی یا ولد الزنا؟(حالانکہ حدیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں یہ ولد الزناہے) تاہم زوج اول کے لیے ، جس کے