کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 104
کیاجاسکتا، دوسرے، جس حکم کی نفی، ارتفاع علت کی وجہ سے کی جائے ، وہ علت واضح اور صریح ہو، اس میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔
بنابریں جس مسئلے میں ارتفاع علت کا حکم لگا کر ارتفاع حکم کا اثبات کیا جائے، اس کے لیے دو چیزیں ضروری ہوں گی۔
ایک یہ کہ جو علت بیان کی جارہی ہے، وہ شرعی دلا ئل سے ثابت اور واضح ہو کہ واقعی اس حکم کی یہی علت تھی جس کی بناء پر حکم دیاگیاتھا جیسے پچھلی صفوں میں عورتوں کے نماز پڑھنے کی وجہ سے مردوں کو حکم دیاگیاتھا۔
دوسری یہ کہ اس حکم کی اس کے سوا کوئی اور علت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس حکم میں کئی علّتیں مضمر ہوں ، ایسی صورت میں کسی ایک علت کے ارتفاع سے وہ حکم ختم نہیں ہوگا بلکہ باقی رہے گا۔
حکم لعنت میں بیان کردہ علّت کی حقیقت
اس بنیادی وضاحت کی روشنی میں ہم حنفی مفسر کی بیان کردہ علت کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف واضح ہوجاتاہے کہ ان کی بیان کردہ علت کے لیے ان کے پاس کوئی واضح شرعی دلیل اور قرینہ نہیں ہے بلکہ منحرفین کی طرح ایک خودساختہ علت ہے جس کی بناء پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔
وہ حدیث [لعن اللہ المحل ...الحدیث ]میں لعنت کی علت طلاق کی شرط قرار دیتے ہیں ، حالانکہ حدیث کے الفاظ یا دیگر شرعی قرائن سے ان کی بات کی قطعا تائید نہیں ہوتی بلکہ اول تو دیگر احکام شرعیہ کی طرح یہ حکم بھی بغیر کسی علت کے بیان ہوا ہے، اس لیے ہم اپنی طرف سے اس کی علت گھڑ کر اس حکم کو کالعدم نہیں کرسکتے۔ یہ حکم شریعت کے مقابلے میں ایک نہایت شوخ چشمانہ جسارت ہے۔ ثانیاً اس حکم لعنت پر غور کیا جائے جیسا کہ مفسر مذکور نے غور کیا لیکن انہوں نے چونکہ تقلیدی عینک چڑھائی ہوئی ہے تو اس میں وہی رنگ نظر آیا جو ان کی عینک پر لگے ہوئے تقلیدی شیشے کا رنگ تھا، لیکن نظر حقیقت اور صاف عینک سے دیکھا جائے تو اس میں کارفرماعلت اگر کوئی ہوسکتی ہے تو ایک نہیں ، چار علتیں ہیں ۔
پہلی علت: غیرت کا تحفظ ،دوسری علت : انصاف کی علمبرداریتیسری علت: نسب اور خاندانی نظام کا