کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 102
کہ ان کے فقہائے متقدمین ومتأخرین کا موقف چلا آرہاہے۔ ’’ روح القرآن‘‘ کے مؤلف نے اس کی کیا علت بیان کی ہے ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ ان شاء اللہ اس پر گفتگو ہوگی۔ اس سے پہلے آپ علت کے مسئلے کی اصل حیثیت سمجھ لیں ۔
احکام شرعیہ میں اصل چیز اطاعت ہے ، جو بھی اللہ رسول کا حکم ہو، اس کی علت کیا ہے؟ اس بحث میں پڑے بغیر ، اس کا ماننا، اس پر بلا چوں وچراں عمل کرنا فرض ہے۔ اس لیے کہ مسلمان وحیٔ الٰہی کا پابندہے، اس کی عقل میں آئے یا نہ آئے۔ ہرشخص کی عقل الگ الگ ہے ، اگر عمل کرنے کے لیے عقل میں آنا ضروری ہوتا تو حکم الٰہی اور احکام شرعیہ بازیچۂ اطفال بن کر رہ جاتے،کوئی کہتا: یہ عمل معقول ہے۔ کوئی کہتا: میری عقل میں یہ بات نہیں آتی۔ کوئی کہتا: یہ حکم اس طرح ہوتا تو زیادہ صحیح ہوتا۔ اس لیے اسلام میں عقل کو یہ مقام نہیں دیاگیا ہے کہ مسلمان حکم الٰہی کو اپنی عقل کے پیمانے سے جانچے پرکھے، بلکہ اپنی عقل کو حکم الٰہی کا پابند بنا کر رکھے کیونکہ ہر حکم الٰہی کی حکمت، علت اور غایت تک ہر شخص کی عقل کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب ابو جہل نے جاکر بتلایا کہ تیرا پیغمبر تو اب یہ کہہ رہا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہوکر واپس آگیاہے، کیا تو اب بھی اس کی بات مانے گا ؟ ابوجہل کو یقین تھا کہ ابوبکر اس کے ماننے میں یقینا تأمل کرےگا۔ لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر واقعی میرے پیغمبر نے یہ کہا ہے تو سچ کہا ہے کیونکہ میرے پیغمبر پر تو وحی آتی ہے تو جب میں اپنے پیغمبر کی وحی پر مبنی تمام باتیں تسلیم کرتاہوں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار کردہ واقعۂ اسراء کا انکار میں کس طرح کرسکتاہوں ؟
یہ ہے ایک مسلمان کا طرز عمل ، وہ حکم الٰہی اور فرمان پیغمبر کے مقابلے میں اپنی عقل کو استعمال نہیں کرتا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ احکام الٰہیہ عقل کے خلاف ہیں اس لیے عقل کے استعمال کی اجازت نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر حکم الٰہی کی حکمت وغایت تک ہر عقل کی رسائی ممکن نہیں ، تو جس چیز کی حکمت انسان کی عقل میں نہ آئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خلاف عقل ہے بلکہ وہ اس کی عقل وفہم سے ماورا ہے۔ انسانی عقل محدود ہے، ضروری نہیں کہ ہر بات کی حقیقت تک اس کی رسائی ہوجائے۔ اس لیے کہاجاتاہے کہ احکام الٰہیہ میں عقل وقیاس کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مشہور مقولہ ہے:
’’اگر دین میں عقل ورائے کا دخل ہوتاتو جرابوں پر مسح اوپر والے حصے کی بجائے نچلے حصے پر کرنے کا حکم ہوتا۔‘‘