کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 101
لیکن مفسر موصوف اس ساری کدّوکاوش اور فکری جانکاہی کے باوجود اپنے ضمیر کو مطمئن کرنےمیں ناکام ہی رہے اور دل ودماغ کو اس کشمکش سے پاک نہ کرسکے کہ جس کام پر اللہ کے رسول نے لعنت فرمائی ہے، اس لعنت کا تقاضا تو اس کام کی حرمت وممانعت ہے ، نہ کہ اس کی حلت اور اس کا جواز؟ چنانچہ سب کچھ کرنے اور سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود،ضمیر کی خلش نے ان کے قلم سے بالآخر یہ الفاظ بھی لکھوا دیے۔ ’’ اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔‘‘ محترم!کیوں نہیں ؟ جب آپ کی فقہی نکتہ سنجیوں اور تقلیدی موشگافیوں سے وہ کام حرام ہی نہیں رہا، بلکہ حلال ہوگیا اور حلال ہی نہیں ہوا بلکہ اجروثواب کا باعث ہوگیا، تو اس کی تحسین کیوں نہیں کی جاسکتی؟ کیا اجروثواب والے کام کی بابت یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ قابل تحسین نہیں !؟ اب دو ہی باتیں ہیں ، یا تو حلالۂ ملعونہ کو حلال کرنے کی کوشش قابل تحسین نہیں اور اگر یہ کوشش قابل تحسین ہے تو پھر یہ فرمان غلط ہے کہ حلالۂ ملعونہ کی تحسین کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ دونوں باتیں بیک وقت صحیح نہیں ہوسکتیں ۔ احکام شرعیہ میں علّت کا مسئلہ احکام شرعیہ میں علت کا مسئلہ اپنی جگہ ایک اہمیت کا حامل ضرور ہے۔ لیکن اس کی اصل حیثیت کیا ہے؟ اس سے اکثر بے خبر ہیں ۔ علاوہ ازیں اس دور میں شریعت کے اصل احکام سے انحراف کرنے والے(منکرین حدیث ، مغرب زدہ مستغربین اور مشّککین ) نے اس کو اپنی فکری گمراہی اور استشراقی فکر کے اثبات کا ذریعہ بنایا ہواہے، اور شریعت کے جس مسئلے سے جان چھڑانی ہو، وہاں وہ یہی ذریعہ اختیار کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک علت گھڑ کے کہتے ہیں کہ اس کی اصل علت یہ تھی ، اب چونکہ یہ علت باقی نہیں رہی اس لیے یہ حکم بھی باقی نہیں رہا، اس طرح عورتوں کے بارے میں اسلام نے عورت کی عصمت وتقدس کے تحفظ کے لیے جو احکام دیے ہیں (مثلاً : پردہ، صرف گھریلو امور کی ذمے داری وغیرہ) وہ ان سب کو ختم کرکے مغرب کی طرح عورتوں کے لیے ہر طرح کی آزادی کو اسلام کا حکم باور کرانا چاہتے ہیں ۔ ’’روح القرآن ‘‘کے فاضل مؤلف یا مؤلفین نے اپنے حلالۂ ملعونہ کے اثبات کے لیے اس علت کے ہتھیار کو بھی استعمال کیا او رمذکورہ ضالّ اور مضلّ گروہوں کی طرح اپنی طرف سے ایک علت گھڑ کے اس لعنت والے کام سے لعنت والا عنصر ختم کرکے اس کو ملعون کے بجائے ماجور(باعث اجر) قرار دے دیاہے جیسا