کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 100
آہ ، اقبال نے سچ کہا تھا ؎
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو بناسکتے ہیں پازند[1]
صاحب تفسیر مزید فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لعنت فرمائی ہے وہ طلاق کی شرط کی وجہ سے ہے اگر بلاشرط کے یہ کام ہوتو لعنت بھی نہیں ہے۔ شرط کے ساتھ ہوتو بھی قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے مگر گناہ کے ساتھ۔ اور بغیر شرط کے ہوتو لعنت وگناہ کا کوئی عنصر (Element) پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔‘‘[2]
اس عبارت میں صاحب تفسیر کی زولیدہ خالی، پریشان فکری اور حرام کو حلال ثابت کرنے کی سعیٔ مذموم میں ضمیر کی کشمکش کو آسانی سے ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے! پہلے موصوف نے فرمان رسول کی از خود ایک علّت(وجہ) وضع کی۔
دوسرے نمبر پر فرمایا : وہ علت(شرط طلاق) نہ ہوتو لعنت بھی نہیں ۔
تیسرے نمبر پرفرمایا : شرط کے ساتھ ہوتو بھی قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے مگر گناہ کے ساتھ ۔
چوتھے نمبر پر فرمایا : اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی قطعاً گنجائش نہیں ۔
سوال یہ ہے کہ جب آپ نے پورے شرح صدر کے ساتھ حدیث رسول کی خود ہی ایک عدت گھڑ کر یہ فیصلہ کر دیا کہ بہ نیت تحلیل نکاح میں یہ علت(شرط طلاق) چونکہ نہیں ہوتی اس لیے سرے سے لعنت والا کام ہی نہیں ہے اور مزید رعایت دیتے ہوئے فرمادیا کہ شرط طلاق کے ساتھ بھی نکاح ہوتو قانونی ضرورت تو پوری ہوہی جاتی ہے گو گناہ کے ساتھ ہی سہی۔
اس طرح حدیث رسول کی ساری اہمیت کو ختم اور اس کے اصل مقصد وغایت کو غتربود کرکےحلالۂ ملعونہ کا مکمل طور پر جواز فراہم کردیا ۔اس کے بعد تو سارا مسئلہ ہی ختم اور ساری بحث ہی تمام ہوجاتی ہے۔
[1] بال جبریل ، ص:20
[2] تفسیر روح القرآن 1/589۔590، زیر نگرانی شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم ، مدیر جامعہ البنوریۃ العالمیۃ کراچی