کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 9
تعالیٰ ان کیلئے بھی ماہرین ( نقاد وحذاق ) پیدا فرمادےگا( جو خبیث کو طیب سے الگ کردیں گے ) ۔‘‘
عصر حاضر میں اسی کم علمی کی بنا پر بڑے بڑے مسائل پر جرأت سے رائی زنی کرنے والوں کی کثرت ہے ۔ اس خطرے کے پیش نظر اہل علم فرماتے ہیں : ’’ لو سکت من لا يعلم لسقط الخلاف‘‘. یعنی جس کو مسئلہ معلوم نہیں ہے وہ اگر خاموش رہے تو اختلاف خود بخود ختم ہوجائے ۔ سلف سے منقول ہے کہ :’’ إن أحدکم ليفتي في المسألۃ لو وردت علی عمر لجمع لہا اھل بدر‘‘ تم ایسے ایسے مسائل میں بات کرنے کی جرأت کرتے ہو کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ مسائل پیش ہوتے تو وہ ان کے حل کیلئے اہل بدر کی جماعت کو جمع کرتے ۔‘‘
الغرض عصر حاضر میں علماء کی تعداد کم ہے اورقیل وقال کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ یہ بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہے جس کا تدارک ضروری ہے ۔ جاہلوں کے علماء کی صف میں ہونے سے علماء کی ساکھ مجروح ہورہی ہے ۔
( ۴ ) معاشرتی روایات اور ثقافت سے لاعلمی :
ایک داعی کیلئے فقہ الواقع کا عالم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اپنے ماحول سے واقفیت کے بعد ہی ایک عالم دین کی دعوت مؤثر ہوسکتی ہے۔ ماحول سے واقفیت کو بعض لوگ غلط پیرائے میں لے جاتے ہیں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک داعی اور عالم دین کو اپنے معاشرہ میں موجود لوگوں کی عادات، ان کی نفسیات، اور معاشرہ میں در آنے والے منحرف افکار کا علم ہونا چاہئے اور مداخل الشیطان سے بھی بخوبی واقف ہو تاکہ معاشرے کی اصلاح علی وجہ بصیرت کر سکے ۔
عربی میں قاعدہ متعین ہےکہ : (( الحكمُ على الشيءِ فَرعٌ عَن تَصَوُّرهِ ))
کسی چیز پر حکم لگانے سے قبل اس کا مکمل تصورذہن میں ہونا ضروری ہے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ولا يَتَحقَّق ذلك إلا بمَعرفَةِ ( الواقِع ) المُحيطِ بالمسألَةِ المُرادِ بَحثُها ؛ وهذا مِن قَواعدِ الفُتيا بِخاصَّةٍ، وأصول ِ العلم ِ بعامَّةٍ‘‘ .
مسئلہ کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک زیر بحث مسئلے سے متعلق ماحول کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا جائے ، یہی فتویٰ کاقاعدہ ہے اور یہی علم کا عمومی اصول ہے ۔