کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 8
میں ، وفود کو ، حج وعمرہ اور دیگر خاص مواقع پر ، راستے میں چلتے پھرتے ، سفر میں ، قبرستان میں ، الغرض انبیاء اور ان کے اصحاب نے ہر مناسب جگہ دعوت دین کاعظیم فریضہ انجام دیا ۔[1] ( ۳ ) شرعی علوم میں عدم تعمق: ہم جس دور میں بس رہے ہیں یہ ایسا دور ہے جس میں فتنوں کی یلغار ہے۔ جس میں شہوات کے ساتھ شبہات کا فتنہ سر چڑھ کر بول رہاہے۔ آئے روز نت نئے عقائد ونظریات کا وجود میں آنا علماء کی ذمہ داری اس حوالے سے بڑھا دیتا ہے کہ وہ اس سب کے لئے تیار ہوں ۔ مکّاروں کی چالوں کو سمجھیں ۔ ان فتنوں کی بیخ کنی کریں ۔ اس سب کیلئے شرعی علوم میں تعمق اور ملکہ حاصل کرناضروری ہے۔ کتنے ایسےداعی تھے جو غیروں کی اصلاح کیلئے نکلے اورعلمی نا پختگی کے باعث خود فساد اور گمراہی کا شکار ہوگئے ۔ فرمان الہٰی ہے ﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّٰهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّٰهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ [يوسف: 108] آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے، میں اورمیرے پیروکار اللہ کی طرف بلا رہے ہیں ، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اور اللہ پاک ہےاور میں مشرکوں میں نہیں ۔ لہٰذا دعوت کیلئے بصیرت کی ضرورت ہے اور بصیرت علم میں تعمق سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا عموما دیکھا گیا ہے بہت سے طلباء علمی بے بضاعتی کے سبب مناظرات ومباحثات میں کود پڑتے ہیں اور مخالف کی چرب زبانی کے باعث شکست کھاکر لوگوں کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں ۔ لہذا اس وقت جہاں علماء اور عوام کے مابین رشتے کو مضبوط کرنے اور دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے وہیں بہت سے علوم میں تمکّن حاصل کرنے اور انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ابتدائی ادوار کے فتنے بڑی مضبوطی سے اٹھے تھے لیکن جب ان کا مایہ ناز علماء سے پالا پڑا تو جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ۔ ان کےمنطقی وعقلانی دلائل انہیں کی موت کا باعث بن گئے ، جس کی بنیادی وجہ اس وقت کے علماء کے علم کی مضبوطی اور ان کاہرفن مولا ہونا تھا ۔ اس لئے جب عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ : ’’ان موضوع ومن گھڑت روایات کا کیا بنے گا؟ (جو دشمنان اسلام نے دسیسہ کاریوں سے کتب حدیث میں داخل کردی ہیں ) ۔ آپ فرمانے لگے ۔ اللہ
[1] دعوت دین کے حوالے سے فاضل عالم دین پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ کی کتابیں( ۱)’’ دعوت دین کسے دیں‘‘ ؟ (۲) ’’دعوت دین کہاں دی جائے‘‘ ۔ ملاحظہ کریں اپنے موضوع میں انتہائی معتبر کتب ہیں جزاہ اللہ خیرا ۔ )