کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 6
خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا معیار امرا ء کا معیار ہو۔ اس لئے استعماری سازشوں نے اہل علم کو بدنام کیا اور امراء کو عیاشیوں اور شاہ خرچیوں پر لگادیا۔
اب یہاں اہل علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے عوام الناس کے سامنے خالص عملی اور علمی کردار پیش کیا جائے، تاکہ یہ خلیج کم سے کم ہو اور عوام ایک مرتبہ پھر سے علماء کے حضور دو زانوں ہوکر بیٹھ جائیں ۔
زیر نظر تحریر میں ان بنیادی اسباب کی جانب توجہ مبذول کرانےکی سعی کی گئی ہے جن کے تدارک اور اصلاح سے علماء اور عوام، دین اور دنیا میں قائم ان فاصلوں کو ختم یا کم کیا جاسکتاہے۔ قبل اس کے کہ اسلامی تشخص ہماری تہذیب وثقافت سے کلی طور پرکہیں مٹ ہی نہ جائے۔ اسباب چونکہ دونوں طبقات میں موجود ہیں لہٰذا اول اہل علم سے متعلقہ اسباب ذکر کریں گے بعد ازاں عوام سے متعلق۔ باللّٰه نستعین وعلیہ نتوکل
اہل علم طبقہ کی جانب سے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں ۔
(۱ ) اخلاص کی کمی :
اخلاص اعمال میں وزن پیدا کرتا ہے، اخلاص کے فقدان سے عمل کی رنگ آمیزی یا تو پھیکی پڑجاتی ہے یا بدنما ہوجاتی ہے۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ علم کے شعبے کو بھی گویا کہ نظر لگ گئی ہے اہل علم کا لبادہ اوڑھ کر ایسے لوگ اس شعبے میں در آئے ہیں کہ جن کے مقاصد کچھ اور ہیں الا من رحم ربی آج کے علماء اور ماضی کے علماء میں موازنہ کریں تو یہ بات شدت سے کھٹکتی ہے کہ آج کے علماء میں اخلاص کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔اخلاص عمل کی روح ہے، جسے ہم نے ثانوی درجے کےجھگڑوں میں الجھ کرگنوادیا ہے ۔ یہ جھگڑے تنظیمی ، جماعتی ، منصبی اور ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دعوت دین کو بے پناہ نقصان پہنچتاہے ۔ اداروں کی انتظامیہ سے الجھاؤ اور انتظامیہ کی بے معنیٰ دخل اندازی نے ایسے بھیانک نتائج جنم دئے ہیں کہ ملکی سیاست کا اثردینی اداروں میں نظر آنے لگا ہے۔ جو باتنخواہ ہیں وہ تنخواہ کا رونا روتے ہیں اورجو اہل تجارت ہیں وہ وقت کی کمی کی شکایت کرتے ہیں ۔ تنخواہ دار عالم سمجھتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں نظماء کی ہیں اور تجارت پیشہ علماء کا خیا ل ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں ان ائمہ، دعاۃ اور مدرسین کی ہیں جو اس پیشے سے منسلک ہیں۔