کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 5
ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور ہم یہ بات بڑے ہی عزم اور یقین سے کہتے ہیں کہ برصغیر میں اگر مدرسے نہ ہوتے تو یہاں اسلام ہندومت اور مغربی ثقافت میں دب جاتا۔ یقینا اس طبقہ کی بڑی جلیل القدر خدمات ہیں اور تمام امت اس کی معترف ہے۔ ہم کیسے تیراک ہیں جاکر پوچھو ساحل والوں سے خود تو ڈوب گئے لیکن رخ موڑ دیا طوفانوں کا لیکن ان کامرانیوں ، کاوشوں اور ان کے بیش بہا نتائج کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ عوام اور علماء، دین اور دنیا میں پیدا ہونے والی خلیج میں یہ طبقہ بھی دانستہ یا نادانستہ حصہ دار ضرور ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس طبقہ کی معاشرےسے جزوی یا کلی کنارہ کشی کے نتائج یہ نکلے کہ مغربی فکر نے تمام معاشرہ کو زہر آلود کردیا، زمانے کی زبان بدل گئی، اصطلاحات بدل گئیں ، رہن سہن کے طور طریقے بدل گئے۔اب صورت حال یہ ہوچلی ہے جس کا نقشہ ’’ماہنامہ الشریعہ ‘‘ کےایک مضمون نگار نے بہت ہی عمدہ پیرائے میں کھینچا ہے۔موصوف علماء اور مذھبی طبقہ سے متعلق کہتے ہیں :’’ یہ حضرات اپنے دامن میں حق بھی رکھتے تھے اور حق کی حفاظت کےسب دلائل بھی ان کے پاس تھے، مگر زبان وماحول کی اجنبیت، لب ولہجہ کا فرق اور مروجہ اصطلاحات سے ناواقفیت کی بنا پر سیکولرزم کے علمبرداروں سے تو دور تھے ہی، معاشرے کے عام سمجھ دار افراد کی فکر اور سوچ کو بھی زیادہ متاثر نہ کرسکے اور عوام کا جتنا کچھ تعلق انکے ساتھ رہ گیا تھا، وہ بھی محض عقیدت کی بنیاد پر تھا‘‘[1]لہٰذا سیکولر لوگوں کا وہی مطالبہ تھا جو مغرب میں پوپ سے کیا گیا تھا کہ اپنا دائرہ عمل مسجد ومدرسہ تک محدود رکھو او ر مذہب کو سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے علیحدہ رہنے دو۔ الغرض یہ داستاں بہت طویل ہے اسباب دونوں طرف موجود ہیں اب ضروت اس امر کی ہے کہ اگر اہل علم اور عوام دونوں چاہتے ہیں کہ اسلام پھلے پھولے، معاشرہ دوبارہ قرون اولیٰ کے خطوط پر استوار ہوجائے تو دونوں طبقوں کو ا ن اسباب کا تدارک کرناہوگا جو فریقین کے مابین دوری کا باعث بنے ہیں ان کے ازالے سے اور عوام اور علماء کے ادب واحترام کے رشتے کی مضبوطی سے ہی دین ترقی کرسکتا ہے ورگرنہ ہم سب عند اللہ پکڑے جائیں گے۔کیونکہ امت دراصل دو طرح کے لوگوں کی اقتداء کرتی ہے۔ علماء اور امراءدین کے معاملے میں لوگ علماء کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ علماء اسلام کی قولی یاعملی جیسی بھی تصویر پیش کرتے ہیں عوا م اسی کی تابع ہے اور دنیاوی امورمثلا سواری، گھر، جائداد، طعام وغیرہ میں ہماری قوم کی
[1] ماہنامہ الشریعہ، جلد ۱۹ شمارہ ۶ جون ۲۰۰۸