کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 4
سیاست ڈیرے جمائے ہوئے ہے۔ ادھر دوسری طرف کے لوگ جنہوں نے مذہبی اور قدیم اسلامی روایات کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا تھا انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی معاشرہ سے انہیں زیادہ سروکار نہ رہا، بس کہیں نکاح، یا جنازہ پڑھانے کی ضرورت پڑی تو حاضری دے دی، اگر کسی نے دکان کھول لی تو وہاں قرآن کو چند گھنٹوں میں ختم کرنے پہنچ گئے کسی نے مسئلہ پوچھ لیا تو ٹھیک ہے ورنہ مسجد ہے مدرسہ ہے اللہ اللہ خیر سلا۔
حاصل کلام یہ کہ جس طرح قوم نوح میں بت پرستی کا آغاز ہوا تھا اسی انداز سے مغربی افکار اور مغربی علوم نے علماء اور عوام، دینی ودنیاوی طبقات میں تفریق پیدا کردی۔ جیساکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ قوم نوح میں بت پرستی کے آغاز سے متعلق فرماتے ہیں :’’ قوم نوح کے نیک افراد جب مرگئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصویریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو۔ جب یہ تصویریں بنا کر رکھنے والے فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر شرک میں ملوث کردیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں ، چنانچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کردی۔ ‘‘[1]
بالکل اسی طرح جدید مغربی تہذیب نے ایسا وار کیا کہ مسلمانوں کے جس طبقے نے مغربی نظام میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تھا کہ اس کے ذریعے اسلام کی خدمت کی جائے اسلامی معاشرے کو دنیا کے مقابلے میں لایا جائے!۔ یہ سوچ ان میں اس وقت تک رہی جب تک اس سوچ کے افراد زندہ تھے جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولادوں کے ذہنوں میں بات ڈال دی کہ مذھب اور مولوی ازم سے تمہارا کیا سروکار تمہارے اباؤ اجداد کی ترقی کا راز تو مغربی تہذیب ومغربی افکار میں پنہاں ہے۔ یہی تمہارے اباء واجداد کی ترقی کا باعث تھا لہٰذا تم جتنا اس راستےپر آگے چلتے جاؤ گے ترقی کی منزلیں طے کرتے جاؤ گے۔
دوسری طرف کا جو طبقہ تھا اس کے اخلاف یہ سمجھنے لگ گئے کہ ہمارا کام تو بس مسجد میں امامت، مدرسے میں تدریس تک محدود ہے۔ باہر نکلے تو قرآنی خوانی اور چہلم میں شرکت کرنا ہی کافی ہے۔ اسی سے انقلاب آئے گا یہیں سے دنیا بدلے گی۔الغرض اس طبقہ کی قربانیوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یقینی طور پر جو راہ انہوں نے اختیار کی بڑی اعلیٰ وارفع راہ تھی جس نے برصغیر پاک وہند میں اور دیگر استعمار سے متاثرہ ریاستوں میں علم کو، اسلام کو زندہ رکھا، مغربی تہذیب وثقافت کے تند وتیز حملوں اور طلاطم خیز موجوں کا
[1] صحيح بخاري، حديث : 4920