کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 3
میں ’’ سیکولرزم ‘‘ کے نام سے ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جوکہ رد عمل تھا پوپ اور جاگیرداری وبادشاہی نظام کے ظلم واستبداد کا۔ اس سیکولر فکر کو اس وقت مزید تقویت ملی جب مغرب میں صنعتی اور اقتصادی انقلاب آیا اور اس کے ذریعے سے مغرب دنیا پر حکمرانی کیلئے نکل کھڑا ہوا۔ مسلمان مملکتوں کو محکموم بنانے کے بعد اس نے بنیادی طور پر دو کام کئے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے قدیم نظامِ حکومت اور نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور دوسرا ان پر معاشی معاشرتی اور سیاسی طور پر وہ نظام مسلط کئے جو انہوں نے اپنے کند ذہن اور کچے تجربات کی روشنی میں تشکیل دئے تھے۔ نظام حکم اور نظام تعلیم کی تبدیلی اور معاشرتی وسائنسی علوم کے طوفان کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوچ بٹھا دی گئی کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو ان علوم کو پڑھنا ہے،ترقی کیلئے یہ جدید علوم ناگزیر ہیں ۔اگر یہ حاصل نہ کئے گئے تو مسلمان دنیا میں سب سے پیچھے رہ جائیں گے۔الغرض پھر حادثہ فاجعہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی تہذیب، تمدن، روایات ورسومات سب کو ان علوم پر قربان کردیا۔ اپنی زبانیں بدل لیں ، ثقافت کو دیس نکالا دے دیا، مذہب کو مسجد ومدرسہ تک محدود کردیا۔ اب اس کے بعد مسلمان دو طبقات میں بٹ گئے ایک وہ طبقہ جن کی آنکھوں کو جدید تہذیب کی چکا چوند خیرہ کئے ہوئی تھی انہوں نے اپنا معاشرتی کردار بلند کرنے کیلئے ان مغربی افکار کا سہارا لیا ۔جبکہ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے اپنے مذہب، اپنی قدیم روایات، وثقافت اور عقائد کی حفاظت کو اپنا ہدف بنایا۔یہ دو راستے تھے اگرچہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ مسلم معاشرے اور ثقافت کو ترقی دینا مضبوط کرنا مگر راہیں جدا ہونے سے ترجیحات بدل گئیں ، جیسے جیسے آگے بڑھتے گئےوہ اپنے معاشرے وتہذیب سے کٹتے چلے گئے۔ زبانیں تک بد لیں ، لباس، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال، بناؤ سینگار سب کچھ امپورٹ کیا۔ جب اس جداگانہ سفر کا آغاز ہوا تھا تو کافی عرصے تک اس طبقے میں مذہبی وثقافتی باقیات زندہ رہیں لیکن جیسے جیسے نئی نسلیں آئیں اورپرانی عہد پارینہ کا حصہ بنیں تو یہ خلیج بڑھتی چلی گئی نئی نسلیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کوجو قدیم روایات اور مذہب سے جڑے ہوئے تھے انہیں اجبنی سمجھنے لگیں ۔جدید نظام نہ صرف ان کے دلوں میں گھر کر گیا بلکہ لوگوں کو اس کی دعوت دینے اور پرچار بھی کرنے لگے۔ چلتے چلتے بات یہاں تک آن پہنچی کہ مذھب کو ملاّازم کہنا شروع کردیا کوئی بھی شرعی بات آتی ہے تو کہہ کر جان چھڑ ا لیتے ہیں کہ یہ مولویوں کی داستانیں ہیں ۔ مذھب کو پرائیویٹ زندگی تک محدود کردیا گیا۔ پانچ وقت کی نماز اور سال میں ایک بار زکوٰۃ دے لینا ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا۔ پہلے معاشرے، معیشت، بازاروں سے دین نکلا، پھر گھروں سے بھی نکل گیا اور اب ذات اور پرائیویٹ زندگی سے بھی نکل چکا ہے۔ آج وہ مساجد ومدارس میں محصور ہے اور یہاں بھی دنیا کی