کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 24
ایک اور خط میں رقم طراز ہیں : کیا فرانسیسی اس بات سے بے خبر ہیں کہ صلیبی جنگیں کامیاب ہو جاتیں اگر ان کے قلعے شام کے شمال مشرق میں نُصیری سرزمین پر ہوتے۔ ہم نے اس تفصیل کو اس لئے اکٹھا کیا ہے تاکہ موجودہ فساد کی تھوڑی سی تاریخ بھی قارئین تک پہنچائی جا سکے۔ مندرجہ بالا میمو رنڈم میں نصیریہ اسلام دشمنی اور یہود سے دوستی ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہے۔ اس میمورنڈم پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک نام‘‘سلمان الاسد’’ کاہے جو کہ ’’کلبیہ‘‘ قبیلے کا سردار تھا۔ یہی ’’سلمان‘‘ موجودہ صدر بشار الاسد کا دادا اور حافظ الاسد کا باپ ہے۔ شام کے فرانسیسی حکمرانوں نے جن کو اصل خطرہ سنی اسلام سے تھا ان علویوں کی ایک علیحدہ فوج تشکیل دی اور انہیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ یہی فوج فرانسیسی سامراج سے آزادی کے بعد شامی نیشنل آرمی کہلائی۔ 1946ء میں ایک علوی خاندان کے ہونہار فرزند نے صرف 16سال کی عمر میں بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ خود حافظ الاسد ہی تھا جس نے سیاست میں شمولیت کے ساتھ ساتھ نیشنل آرمی بھی جوائن کر لی تھی۔ بعث پارٹی جس کا منشور ’’وحدت، حریت، اشتراکیت‘‘ تھا اور جو عرب نیشنلزم کی علمبردار تھی، اس نے جب 1958ء میں ناصر کی تعلیمات سے متاثر ہو کر شام کا مصر کے ساتھ الحاق کرنے کا ارادہ کیا تو بعث پارٹی میں موجود علویوں نے اسے بھی اپنے سر پر بجنے والی خطرے کی گھنٹی سمجھا ۔ انہیں عرب نیشنلزم میں بھی یہ خطرہ نظر آیا کہ اس میں سنیوں کی اکثریت ہو گی چنانچہ 1963ء میں ایک علوی ’’صالح حدید‘‘ کی قیادت میں انہوں نے بغاوت کر دی۔ حافظ الاسد جو کہ ایک فائٹر پائلٹ تھا یکایک ایئرفورس کمانڈر بنا دیا گیا۔ فوج کے تقریباً سات سو عہدوں پر پرانے افسروں کو نکال کر نئے نُصیری کمانڈر تعینات کیے گئے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کی شکست کے بعد حافظ الاسد جو کہ اب وزیر دفاع بن چکا تھا نے شامی حکومت پر اسرائیل کے ساتھ خفیہ مراسم رکھنے کا الزام لگایا اور ایک محلاتی سازش کے تحت 1970ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ اس طرح اقتدار پر علویوں کی پکڑ مضبوط ہو گئی۔ اس پکڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1982ء میں جس سینتالیسویں شامی ٹینک بریگیڈ نے حمص میں تقریباً بیس سے تیس ہزار اخوانیوں کو شہید کیا تھا اس کے 70فیصد سے زیادہ آفیسرز علوی تھے اور