کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 23
عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی بڑے کافر ہیں ۔ نہ صرف اُن سے بلکہ یہ مشرکین سے بھی بڑے کافر ہیں اور امت محمدیہ کو ان سے پہنچنے والا نقصان اس گروہ کے نقصان سے بڑا ہے جو کہ مسلمانوں سے لڑتے ہیں جیسا کہ تاتاری ، فرنگی کافر وغیرہ ‘‘ شائد انہی عقائد کے سبب دوسرے رافضی فرقے بھی انہیں 1974ء تک مسلمان نہ مانتے تھے، بلکہ اہل سنت و الجماعت کی طرح انہیں غالی کہتے تھے ۔ نُصیری فرقہ جو کہ عثمانی خلافت کے زمانے تک مسلمانوں کے رعب کی وجہ سے دبکا رہا۔ سقوط خلافت کے ساتھ ہی اپنے پر نکالنے شروع کردے ۔ 1936ء میں جب فرانسیسی حکمرانوں نے نُصیری ریاست اور شام کے دوبارہ الحاق کا ارادہ کیا تو نُصیری قبیلوں کے سرداروں نے فرانس میں قائم شدہ پاپولر فرنٹ کے سربراہ کو ایک میمو رنڈم بھیجا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں : 1.علوی لوگ جنہوں نے کئی سالوں تک بڑی غیرت اور قربانیوں کے ساتھ اپنی آزادی کی حفاظت کی ہے ، دوسرے سنی مسلمانوں سے مختلف ہیں ۔ ۲.علوی، مسلم شام کے ساتھ اپنے الحاق کا انکار کرتے ہیں کیونکہ شام کا سرکاری دین اسلام ہے اور اسلام کے مطابق علوی کافر ہیں ۔ ۳.ہم اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ دمشق کے مسلمانوں نے اپنے درمیان رہنے والے یہودیوں کو ایک دستاویز پر دستخط پر مجبور کیا کہ وہ فلسطین میں رہنے والے اپنے بدقسمت یہودی بھائیوں کو مدد نہیں بھیجیں گے۔ یہودیوں کی فلسطین میں قابل رحم حالت اسلام میں موجود اس زیادتی کی واضح مثال ہے جو کہ وہ غیرمسلموں سے روا رکھتا ہے۔ حالانکہ ان اچھے یہودیوں نے عربوں کے اندر تمدن اور امن کی آبیاری کی ، سونا بانٹا او ر بغیر کسی کا مال لُوٹے اور نقصان پہنچائے فلسطین میں خوشحالی لے آئے،پھر بھی مسلمانوں نے ان کے ساتھ اعلان جنگ کیا اور سرکارِ برطانیہ کی فلسطین میں موجودگی اور فرانس کی شام میں موجودگی کے باوجود ان کا قتل عام کرنے سے کبھی نہ ہچکچائے،!چنانچہ رائے عامہ کا احترام نہ کرتے ہوئے اگرمسلم شام کو مسلم فلسطین کے ساتھ اکٹھا کر دیا گیا تو یہ ان یہودیوں اور دوسری اقلیتوں کا بدترین انجام ہو گا۔