کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 18
پتہ نہیں کہ کس وقت کوئی کھجور آپ پر گر پڑے۔ ایک عالم دین مومن روزہ دار اور غازی سے بڑھ کر اجر پانے والا ہے۔ ایک عالم دین کے فوت ہونے سے اسلام میں ایسا زخم لگتا ہے جو تاقیامت مندمل نہ ہوگا۔‘‘[1] لہٰذا اہل علم کی تحقیر سے بچنا، انہیں رسوا وذلیل کرنے سے بچنا ، غیور اہل علم کی اطاعت کرنا ان کے مشوروں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اہل علم سے متعلق فرماتے ہیں : ’’علماء کرام دنیا میں ستاروں کی مانند ہیں اندھیروں میں بھٹکا ہوا ان کے ذریعہ راستہ تلاش کرتا ہے ، اور لوگوں کو علماء کی ضرورت کھانے پینے کی ضرورت سے بڑھ کر ہے ،اور از روائے قرآن علماء کی اطاعت ان پر ماں باپ سے بھی بڑھ کر فرض ہےفرمان باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو (رسول اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ‘‘ اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور تابعین میں حسن بصری ابو العالیہ اور عطاء بن ابی رباح ضحاک اور مجاہدرحمہم اللہ ( ایک روایت میں )فرماتے ہیں "أولو الأمر" سے مراد علماء کرام ہیں ۔امام احمد سے بھی ایک روایت میں یہی مروی ہے۔ اور ابو ھریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما (ایک روایت میں ) اور زید بن اسلم اور سدی اور مقاتل فرماتے ہیں :" هم الأمراء " اس سے مراد امراء ہیں اور امام احمد سے ایک روایت میں یہی منقول ہے۔ در حقیقت امراء کی اطاعت اس وقت ہوگی جب وہ علم کے تقاضوں کے مطابق حکم دیں تو ان کی اطاعت علماء کی اطاعت کے تابع ہے، تو اطاعت معروف میں ہوگی جو بروئے علم واجب ہوتی ہے۔ تو جیسا کہ علماء کی اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے تابع ہے اسی طرح امراء کی اطاعت علماء کی اطاعت کے تابع ہے، اور اسلام کا قیام دونوں فریقوں یعنی علماء اور امراء کے ذریعہ ممکن ہوتاہے، اور تمام لوگ ان دونوں گروہوں کے تابع ہیں لہذا عالم انسانی کی اصلاح ان دونوں طبقوں کی اصلاح پر مبنی ہے اور اس کی تباہی اور فساد ان دونوں گروہوں کے فساد وتباہی پر مبنی ہے۔[2] علماء کرام کے خصوصی حقوق میں سےایک حق یہ بھی ہے کہ : شرعی مسائل میں ان سے راہنمائی لی جائے اور پیچیدہ مسائل میں ان سے رجوع کریں ۔
[1] الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي رحمه الله ج 1 ص199 [2] إعلام الموقعين عن رب اللعالمين .لإبن قيم الجوزية .ج 1 ص 10