کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 17
مقصد ہیں ، میں نے اپنے دل کی اصلاح علماء کی مجلس میں بیٹھ کر کی ہے۔ اسباب کا تدارک کیسے ممکن ہے ؟ یہ جاننے کے بعد کہ اہل علم اور عوام میں خلیج کا باعث اور سبب دونوں جانب موجود ہے اور اس کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان اسباب کا تدارک نہ کیا جائے اور اسباب کا تدارک اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فریقین کو ایک دوسرے کے حقوق معلوم نہ ہوں ۔ ذیل میں ہم بعون اللہ وتوفیقہ اہل علم کے عوام پر اور عوام کے اہل علم پر چند حقوق کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ اہل علم کے عوام پر حقوق : علماء کرام کے عوام الناس پر بے شمار حقوق بروئے شریعت لازم ہوتے ہیں جن میں چند حقوق وہ ہیں جن میں تمام مسلمان شامل ہیں اور اہل علم بدرجہ اولیٰ اس میں آئیں گے کیونکہ فرمان باری جل وعلا ہے ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ﴾ [فاطر: 28] اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں ۔ ان حقوق میں سے ان پر سلام کرنا، ان کی غیبت سے خود کو بچانا،ان کی دعوت کو قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا، بیمار پرسی کرنا، وفات پر جنازہ میں شرکت کرنا وغیرہ اور چند حقوق ایسے ہیں جو اہل علم کیلئے خاص ہیں جن میں بھلائی کے کاموں میں ا ن کی اطاعت کرنا، ان کی باتوں کے خلاف چلنے سے گریز کرنا، اور اگر ان سے کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اس باب میں انہیں معذور سمجھنا، سیدنا امیر المؤمنین جناب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ عالم کے حقوق سے متعلق فرماتے ہیں : ’’آپ پر عالم کے حقوق میں سے یہ حق ہے کہ لوگوں پر عمومی سلام کرو اور عالم دین پر خصوصی طور پر سلام پیش کرو، اس کے سامنے ادب سے بیٹھو، اس کی مجلس میں ہاتھوں اور آنکھوں سے اشارے مت کرو، اس کے سامنے یہ مت کہو کہ فلاں یہ کہتا فلاں یہ کہتا ہے۔ تاکہ اس کی مخالفت نہ ہو، اس کے پاس کسی کی غیبت مت کرو، اس کی مجلس میں سرگوشیاں مت کرو،اس کے کپڑے کو پکڑ کر مخاطب نہ کرو ( جیسا کہ دوست ایک دوسرے سے کرتےہیں ) ۔ اگر عالم سستی یا تھکان کے باعث کچھ وقت کیلئے آپ کو کوئی چیز نہ سکھائے تواس کے سامنے سیکھنے کیلئے اصرار مت کرو، اس کی صحبت سے مت اکتاؤ کیونکہ اس کی مثال کھجور کی ہے کچھ