کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 16
ہیں ، اپنی اصل کے اعتبار سے جواز کے حدود میں کوئی بھی کام پست نہیں ہوتا ایک ہی کام کہیں پست ہوتا اور کہیں پست نہیں ہوتا، یہ سماجی رویے پر منحصر ہے اس لیے سماجی نفسیات کا لحاظ ضروری ہے علماء کرام نے ”خوارم المروٴة“ کی شرط یوں ہی نہیں لگائی ہے۔
ہم عصر زبان سے عدم واقفیت نے ایک بڑے طبقے کے نزدیک اہل علمکو بے وزن کردیا ہے۔
فقہی کنفیوژن سے بھی عوام میں اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے۔ یہ تو بڑی خوبی کی بات ہے کہ علماء اہل حدیث قرآن وسنت کی روشنی میں بے لاگ طور پر مسائل بیان کرتے ہیں اور علم نہ ہونے پر سیدھی سی خاموشی اختیار کرتے ہیں مگر بعض بے اعتدالیاں ہیں جن سے ماحول مکدر ہوجاتا ہے حتی کہ تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والی عوام بھی فتوے دے مارتی ہے۔گویا
یہ جوئے شیر تو ہم بھی نکال سکتے ہیں
مزہ تو جب ہے کہ فرہاد شعر کہنے لگے
ادھر عوام الناس پر ضروری ہے کہ وہ ذمہ داریوں کو سمجھیں ۔ اور علوم ضروریہ حاصل کریں تاکہ ایک باپ اور ایک ماں شرعی طور پر اتنا جانتی ہو کہ اس نے اپنی اولاد کی تربیت کس نہج پر کرنی ہے اسی باعث ہمارے گھر اور معاشرہ فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ قرون اولیٰ کے فتنے اپنی قوت اور شوکت کے باوجود پسپائی اس وجہ سے اختیار کرگئے کہ اس وقت عوام کا علماء سے تعلق مضبوط تھا، جیسے کوئی فتنہ سر اٹھاتا اہل علم لوگوں کا ہاتھ تھام لیتے اور انہیں فتنے سے نکال لیتے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’الفتن إذا أقبلت عرفها كل العالم وإذا أدبرت عرفها كل الجاهل‘‘
فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے اور جب تباہی مچا کر چلا جاتا ہے تو پھر جاہل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔
میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں : :’’ بنفسي العلماء هم ضالتي في كل بلدة وهم بغيتي إذا لم أجدهم، وجدت صلاح قلبي في مجالسة العلماء۔‘‘[1]
میں علماء پر اپنی جان نچاور کرتا ہوں ہر شہر میں وہ میرےگمشدہ زیور ہیں ، اگر مجھے نہ ملیں تو وہی میرا
[1] جامع بیان العلم وفضلہ ج 1 ص 211