کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 15
ہو، دینی اداروں کو ان کا تعاون اور اعتماد حاصل رہے۔ بدقسمتی سے بعض حضرات اپنی نا سمجھی اور نادانی کی وجہ سے ایسی باتیں کہہ جاتے اور لکھ جاتے ہیں جن سے مدارس اور اہلِ مدارس کی بے وزنی ہوتی ہے۔ بعض اخبارات ورسائل وجرائد میں اہل علم کا تمسخر اور دینی اداروں کا مذاق اڑایا جاتاہے۔
اس طرح کی باتیں کہہ اور لکھ کر دراصل ہم اپنے دشمنوں کو طاقت پہنچاتے ہیں ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ وہ مادیت کے پرستار نہیں ہیں ، وہ الٰہ واحد کے پرستار ہیں ، ان کے لیے دنیا سے بڑھ کر دین ہے، ان کی منزل اس جہانِ فانی سے آگے ہے، اور ان کے دین کا تحفظ علماء سے ارتباط اور مدارس کی بقاء میں ہے۔ علماء اور مدارس کی مثال سرحد پر متعین ان فوجیوں کی ہے جو دشمن سے آپ کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کو کمزور کرنا اپنے آپ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
علمی طبقے سے منسوب کچھ لوگ بھی اس فیلڈ کو بدنام کرنے پر لگے ہوئے ہیں ، جو اپنے مفادات کے حصول کیلئے علم اور علماء کو بدنام کرتے ہیں مولویانہ حسد ایسی جڑیں مضبوط کر چکاہے کہ دوسرے کی بے عزتی کرکے اپنی عزت بنانے کومشغلہ بنا لیا گیا ہے۔ اپنے بڑوں کی، معاصرین کی نجی اور پرسنل قسم کی غلطیوں کو بھی قطعی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ عوام میں اپنے ہم عصر اہل علم وطلباء پر تنقید کرکے جگ ہنسائی کا سماں پیدا کرتے ہیں ۔
ابوحازم کہتے ہیں کہ’’ اگلے زمانے میں علماء کی حالت یہ تھی کہ عالم اپنے سے بڑے عالم کو دیکھتا تو نہایت خوش ہوتا، برابر والے سے ملتا تو علمی مذاکرہ کرتا، ادنی سے سامنا ہوتا تو گھمنڈ سے کام نہ کرتا لیکن ہمارے اس زمانے کی حالت یہ ہے کہ عالم اپنے سے بڑے عالم میں خامیاں نکالتا ہے تاکہ لوگ متنفر ہوکر اسے چھوڑ دیں ، برابر والے سے مذاکرہ نہیں کرتا اور ادنی کو پاتے ہی اکڑنے لگتا ہے۔‘‘[1]
ہمارے معزز علماء خواہ وہ جامعات کے نظماء ہوں یا تنظیموں کے رہنما کبھی یہ فکر نہیں کرتے کہ اپنے علماء سے باعزت انداز سے کام لیں تاکہ سماج میں ان کا وقار محفوظ ہو، نہ تو یہی فکر رکھتے ہیں کہ کسی طرح ان کے مسائل حل ہوں بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے مسائل حل نہ ہوں تاکہ وہ علی حالہ سڑک پر موجود رہیں ۔ الامن رحم اللّٰه
بعض دفعہ بعض جگہوں پر علماء سے کچھ ایسے کام بھی لیے جاتے ہیں جو سماجی حیثیت سے پست ہوتے
[1] جامع بیان العلم وفضلہ