کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 14
۵۔ تربیت کی کمی: اساتذہ اور مشائخ کی تعظیم وتکریم کی اعلیٰ مثالوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے کہ کیسے کیسے ہمارے اسلاف نے اپنے مشائخ وعلماء کی تعظیم وتکریم کی۔مگر صد افسوس کہ اس دور میں عوام کی اس نہج پر تربیت نہ تو علماء نے کی ہےنہ گھروں میں بچوں کو یہ تربیت دی جاتی ہے نہ تعلیمی اداروں میں ۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ اسلاف کے واقعات عوام کو بتلا کر نیز خود اپنے مشائخ اور اساتذہ کی واقعی تعظیم کرکے ہم اپنے عوام کو تربیت دیتے تو یہ عوام ہماری بھی تعظیم کرتی لیکن ہم نے اپنے لوگوں کی ایسی تربیت ہی نہیں کی کہ وہ علماء کی تعظیم کریں ۔ ۶۔ مغربی افکار سے اثر پذیری: آج مغرب میں ایک استاد کا تصور کیا ہے؟صرف کلاس روم میں کتابیں پڑھانے والا۔ اس روم سے باہر اپنے شاگردوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ۔ چرچ کا پادری کس لیے ہے؟ صرف اتوار کو دعائیہ محفل منعقد کرنے کے لیے وغیرہ وغیرہ بعینہ اسی طرح جمعہ، عیدین، جنازہ، قربانی، نکاح، طلاق کو چھوڑ کر مسلم معاشرے کو بھی علماء کی چنداں ضرورت نہیں اور جب نوبت یہاں تک پہنچی ہو تو دوری تو آنی ہی تھی پھر اس پر تعجب کس لیے۔ اسباب اور بھی ہیں جن کا احصاء یہاں ممکن نہیں ۔ ضرورت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم مذکورہ اسباب کو سمجھیں اور اس کا سد باب کریں تاکہ علماءاور عوام میں قائم خلیج کو ختم کیا جاسکے اور اپنے معاشرے میں علماء کا کھویا ہوا وقار بحال کیا جاسکے۔ علماء اور عوام کے مابین دوری کیلئے استمعار نے جو ہتھیار استعمال کئےان میں علماء اور مدارس پر بنیاد پرستی، دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا الزام لگایااور ہماری عوام اور میڈیا نے اس رائے کو تقویت دی ۔اب جو بھی مولوی یا مدرسے کا نام سنتا ہے ذہن دہشت گردی کی طرف چلا جاتاہے ۔ ﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللّٰهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّٰهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴾ [التوبة: 32] وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالٰی انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں ۔ ان حالات میں امت کا فریضہ ہے کہ وہ مدارس کے نظام کو تقویت پہنچائیں ، علماء سے ان کا ارتباط گہرا