کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 13
بھی ہے کہ ’’ رجل قلبہ معلق بالمساجد ‘‘ جس کا دل مسجد سے جڑا رہے ۔ بچے کو مسجد اور مدرسے بھیجنے کی بڑی حکمتیں ہیں ۔ایک مرتبہ عباسی خلیفہ ھارون الرشید نے امام دار الہجرہ امام مالک رحمہ اللہ سے درخواست کی کہ وہ ان کے محل میں آکر ان کے بچوں کو حدیث کی کتاب ’’ مؤطا ‘‘ پڑھائیں آپ نے فرمایا اے امیر المؤمنین ’’ العلم يؤتى ولا يأتی‘‘ علم کے پاس جانا پڑتا ہے وہ کسی کے پاس نہیں آتا‘‘ ھارون نے یہ بات سنی تو کہنے لگے آپ نے سچ فرمایا ۔ پھر ھارون الرشید نے اپنے بچوں سے کہا کہ چلو مسجد میں جاکر لوگوں کے ساتھ درس حدیث سنو ۔
اس سے طبقاتی تفریق ختم ہوگی۔ بچہ غریب بچوں کے ساتھ بیٹھے گا اس سےاس میں غریبوں سے ہمدردی ہوگی، امیرغریب میں خلیج کم ہوگی۔ غریبوں سے خیر خواہی کا جذبہ اس کے دل میں پید اہوگا۔ بصورت دیگر قاری صاحب چند ٹکے لیکر گھر میں تو بچوں کو پڑھا جائیں گے۔ لیکن وہ قرآن بچے کے دل میں گھر نہیں کرے گا وہ قرآن کو اپنی ضرورت نہیں سمجھے گا بلکہ یہ سمجھے گا کہ میں قرآن کی ضرورت ہوں ۔ پھر اسکول کی پڑھائی کی وجہ سے والدین اپنی تمام ترتفریحی اور زیارت کے پروگراموں کا شیڈول بچے کے اسکول کے شیڈول کو دیکھتے ہوئے اس کی چھٹیوں سے منسلک کریں گے لیکن قرآنی تعلیم میں اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔کہیں رشتہ داروں کے پاس جانا ہے یا تفریح کیلئے تو قاری صاحب کو منع کردیں گے کہ آج آپ مت آئیے گا۔مگردنیاوی اسکول سے ایسا برتاؤ نہیں کریں گے الغرض جب ہم مسلمان اپنے دین سے سوتیلے پن کاسلوک کرتے ہیں تو پھرکہاں مسلمانوں کو عزت ملے گی کہاں سے ہمارے معاشرے ترقی کریں گے ۔
اہل صنم اوج ثریا سے جاملے اور اہل حرم دعاؤں کا اثر دیکھتے رہے
۴ : علماء کے حقوق سے ناواقفیت:
ہمارے دین میں علماءکا ایک عظیم مقام ومرتبہ اور حیثیت ہے جس طرح سے ان کا فریضہ، شریعت کو بلاکم وکاست پہنچا دینا ہے اسی طرح امت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعظیم اور ادب بجالانے میں کوئی کوتاہی نہ کرے اور ایک مقتدی اور رہنما کی جیسی قدر بجا لانی چاہئے۔ لیکن افسوس کہ ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ اپنی تعظیم میں غلو کرواتا ہے اور دوسرا طبقہ حقیقی تعظیم بھی فراموش کروادیتا ہے جو علماءسے دوری کی شکل میں سامنے آتی ہے۔