کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 12
۳ :مادہ پرستی: اس وقت تمام مسلمان ملکوں میں بلا استثناء سرمایہ درانہ نظام کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ نظام محض عوام تک محدود نہیں رہا دینی اداروں میں بھی اپنی مکمل شان وشوکت سے موجود ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ”لکل امة فتنة وفتنة امتی المال[1]ہر امت کیلئے آزمائش اور فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔اس وقت ہم ایسے دور سے گذر رہے ہیں جو مال کا دور ہے۔ ایک طوائف بھی معاشرے میں اس وقت شریف شمارہونے لگتی ہے جب اس کا بینک بیلنس شرافت کے حدود میں داخل ہوجائے۔مزید یہ کہ مال کمانے والے ذرائع پر ایسے لوگوں کی اجارہ داری ہے جو دین، سماج، اخلاق کی دھجیاں اڑانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اسی لیے شیخ سعدی نے کہا تھا : اے زر! تو خدا نیش ولیک کم تراز خدا نیشی اے پیسے تو خدا تو نہیں لیکن تو خدا سے کم بھی نہیں ۔ چنانچہ جب ساری ضرورت مال پوری کرتا ہے تو اللہ، دین اور علماء کی ضرورت کہاں باقی رہ گئی۔ ظاہر ہے پھر علماء سے لوگ دور ہوں گے۔ اب یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ” سب کچھ مال ہے“ کے فتنے کو مٹا کر ”سب کچھ دین ہے“ جیسے نعرے کو مقبول عام بنادیں ۔[2] ہماری قوم میں دین ودنیا کے تصور کو یہاں ایک معمولی سے مثال سے یہ سمجھیں کہ عوام الناس میں دینی فکر اور سوچ رکھنے والے لوگ بھی دین کو پیسے سے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر بچے کو دنیاوی اچھی تعلیم دلانی ہے تو شدید سردی میں بھی بچے کو دور دراز معیاری اسکول میں چھوڑ کر آئیں گے۔ باپ مصرو ف ہے تو وہ اپنے بچے کیلئے ڈرائیور رکھے گا، ٹرانسپورٹ کا انتظام کرے گا۔ لیکن جب دینی تعلیم اور قرآن سیکھنے کی باری آئے گی تو کہیں گے مدرسےیا مسجد جانے کی ضرورت کیا ہے؟ گھر میں قاری صاحب کوچند پیسے دیکر بلا لیں گے! ۔ لیکن یہ ناداں یہ نہیں سمجھتے کہ شرعی علم کے حصول کیلئے آپ کے بچے کےمدرسے یا مسجد کی طرف اٹھنے والے ایک ایک قدم پر نیکی لکھی جاتی ہے۔ اسے مسجد بھیجنے سے بچے کا دل مسجد سے جڑے گااور جس کا مسجد سے دل جڑ گیا اس کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے اپنے عرش کا خصوصی سایہ مہیا کرے گا جس دن اس کے عرش کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا ان میں ایک شخص وہ
[1] سنن الترمذی ،صحیح ابن حبان [2] www.thefreelancer.co.in