کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 11
۲:معاشرے میں دینی ودنیاوی نام سے طبقاتی تقسیم :
اسلام میں سب کچھ دین ہے۔ اگر دنیا ہے تو وہ بھی دین کے تابع ہے، انسان کی تخلیق کا مقصد ہی عبادت ہے۔فرمان الہٰی ہے ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ [الذاريات: 56]
میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔
اگر ایک مسلمان قضائے حاجت کرتا ہے ،یہ بظاہر تو اس کی طبعی وفطری ضرورت ہے مگر اس کو بھی اگر وہ شرعی آداب ملحوظ رکھتے ہوئے بجا لائے گا تو اسے اجر ملےگا۔ جیسے بیت الخلا میں داخلے سے قبل اور نکلتے وقت دعا پڑھنا، بایاں پاؤں پہلے داخل کرنا۔ استنجا کے شرعی آداب کا لحاظ کرنا۔ حتی کہ انسان اپنی جو جنسی اور شہوانی ضرورت اپنی اہلیہ سے پوری کرتا اس میں بھی اجر رکھا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ فی بضع احدکم صدقۃ ‘‘[1]حتی کہ جائز طریقے سے اپنی خواہش پوری کرنا بھی صدقہ ہے ۔ ماں باپ، بچوں کا پیٹ پالنا، رزق تلاش کرنا یہ دنیاوی تقاضےہونے کے ساتھ شرعی تقاضا بھی ہے۔ اگر شریعت کو نکال دیں توکوئی یہ کہہ سکتا ہے میں اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پالتا اپنے بوڑھے ماں باپ کا خیال نہیں رکھتا، اپنی اولاد کی تربیت کا لحاظ نہیں رکھتا!تو اسے کون پابند کرے گا؟ اگر کہیں گے کہ ملکی قانون تو ہم کہتے ہیں احکم الحاکمین کے قانون کو نہیں مانتے اور دنیا کےبنائے قوانین کا خود کو پابند کرتے ہو!۔ ﴿تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزٰى﴾ [النجم: 22] یہ تو بڑی نا انصافی کی تقسیم ہے ۔
الغرض اسلام میں دین سے ہٹ کر کوئی دنیا نہیں ،اگر ہے تو وہ دین کے ماتحت ہے، اسلام بندےکو اپنی ماں سے محبت کرنا، اپنے باپ کا خیال رکھناسکھاتا ہے ۔ جس معاشرے نے دنیا کو دین سے الگ کرلیا ہے اس کی جاکر حالت دیکھ لو کہ کیسے بوڑھے ماں باپ اولڈ ہاؤسز میں سسکیاں لیکر مرتے ہیں ۔
انسان مر جاتا ہے تو اسلام اس کی اولاد کی کفالت کا بندوبست کرتا ہے اس کی متروکہ دولت کو مستحقین میں عادلانہ طرز پر تقسیم کرتا ہے جسے علم میراث کے نام سے جانا جاتاہے۔ دین اور دنیا میں تفریق اسلامی نظریہ نہیں بلکہ جیسا ہم ذکر کر آئے ہیں کہ یہ سیکولر انقلاب کا نتیجہ ہے، جس نے آج پورے یورپ کو بالخصوص اور پوری دنیا کو بالعموم مادر پدر آزاد کردیا ہے۔
[1] دعوت دین کے حوالے سے فاضل عالم دین پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللّٰه کی کتابیں( ۱)’’ دعوت دین کسے دیں‘‘ ؟ (۲) ’’دعوت دین کہاں دی جائے‘‘ ۔ ملاحظہ کریں اپنے موضوع میں انتہائی معتبر کتب ہیں جزاہ اللّٰه خیرا ۔ )