کتاب: البیان شمارہ 8 - صفحہ 10
( ۵ ) اصلاح کو ناممکن سمجھنا :
دعاۃ ومصلحین پر موجودہ معاشرہ میں ایک مایوسی کی فضا طاری ہے ۔ اس لئے وہ دعوت وہیں دیتے ہیں جہاں انہیں یقین ہو کہ یہاں سے کچھ پذیرائی ملے گے ، یا کم از کم کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوگی ۔ لیکن یہ سوچ سراسر منہج انبیاء کے خلاف ہے ۔ دعوت دین معاشرے کے ہر فرد کیلئے ہے چاہے وہ جرم کی دنیا میں کتنا ہی آگے کیوں نہ نکل گیا ہو ۔ اس لئے بڑے بڑے گلوکار اور گلوکارائیں ، حکّام و ولاۃ ،بیوروکریٹ لوگوں ، اور مخالف فرقے کے لوگوں کو دعوت ہی نہیں دی جاتی یہ سمجھتےہوئے کہ ان کی اصلاح ممکن نہیں یہ بہت آگے نکل چکے ہیں ۔ اس سوچ کو بدلنا پڑے گا ۔ اسلاف کی ایک سنت ہے کہ وہ ولاۃ امر کو نصیحت کیا کرتے تھے ، ان کے ساتھ خط وکتابت جاری رکھتے تھے کہ کبھی نہ کبھی اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب فرمادے گا ۔ بادشاہوں کو اصلاحی خطوط لکھنا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ، اسلاف کا طریقہ ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سنت کو جاری کیا جائے ۔ ٹی وی پر جو منحرف اینکر لا دینیت پھیلا رہے ہیں انہیں خط لکھے جائیں ، ای میلز کی جائیں ۔ حکّام و ولاۃ ، ججز ودیگر کو بھی نصیحتی پیغامات ارسال کئے جائیں ۔ ناامیدی شرعا ًحرام ہے ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ہندہ کا واقعہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کیاپتہ اللہ تعالیٰ کس کو کس وقت ہدایت نصیب کردے ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے علماء کی دعوت کا دائرہ وسیع ہو تاکہ عوام اور علماء میں احترام وادب اور اطاعت کی فضا قائم ہوسکے ۔
عوام میں پائے جانے والےعلماء سے دوری کے محرکات:
۱۔ بے دینی:
ذرائع ابلاغ میں آزادی کا جو پروپیگنڈہ ہے اس سے متاثر ہوکر لوگ اتنا آزاد ہوگئے ہیں کہ دینی پابندی بھی ان کو کھلنے لگی ہے کھانے پینے سے لے کر سونے جاگنے اور معیشت ومعاشرت تک میں اسلام کے کچھ اپنے اصول ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ان آزاد طبع مغرب کے غلاموں کو ناگوار ہے۔ علاوہ ازیں الحاد ولادینیت، ہندومت، یہودیت، بہائی وپارسی نیز بدھست اور عیسائی مشنریاں ذہنوں میں ہمہ وقت زہر گھولنے کو تیار بیٹھی ہیں جس کا نتیجہ مذہب بیزاری اور علماء بیزاری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔[1]
[1] http://thefreelancer.co.in