کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 9
دلوں پر مہر کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دل بند ہوچکے ہیں نہ ان میں ایمان داخل ہوسکتاہے اور نہ ہی ان میں موجود کفر باہر نکل سکتاہے ۔ اسی طرح سورہ انعام کی آیت میں بھی اسی مہر کا اشارہ ہے کہ اللہ اگر تمہارے دلوں پہ وہ لگادے تو نہ کوئی مفید چیز ان دلوں میں داخل ہوگی نہ داخلی شر وکفر باہر آسکے گا ۔ تیسری آیت سورہ احزاب کی ہے جوکہ زیر تحریر مسئلہ کی بنیادی آیت اور دلیل ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ختم ہونے کا بیان ہے ۔ کہ انبیاء کی لسٹ مکمل ہوچکی اب اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا ۔اور نہ کمی ہوسکتی ہے ۔ اگر اس آیت میں وارد لفظ کا معنی’’ آخری نبی‘‘ کریں گے تو لفظ اپنے مدلول میں بالکل واضح ہے کہ ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر اس لفظ ’’ خاتم ‘‘ سے مہر مراد لیں گے تو بھی اس کا یہی معنیٰ متعین ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے سلسلہ انبیاء پر ایسی مہر لگادی ہے کہ اب اس سلسلہ میں سے نہ تو کسی کو نکالا جاسکتاہے اور نہ ہی کسی کو داخل کیا جاسکتاہے ۔ دیگر آیات میں بھی ختم سے مراد وہی ہے جو سابقہ آیات میں ہے کہ کسی بھی چیز کو مہر لگا کر ایسے محکم کردینا کہ اس میں کسی کمی بیشی کی گنجائش نہ رہے ۔ صحابہ کرام اور آیت ختم نبوت کی تفسیر صحابہ کرام ایسی برگزیدہ اور پاک باز ہستیاں ہیں کہ اللہ رب اللعالمین نے ان کے ایمان وعمل کو معیار اور کسوٹی مقرر فرمایا ہے ۔ کہ اگر کوئی بھی شخص اپنے ایمان کی تصحیح کرنا چاہتاہے اس پر کاربند ہونا چاہتاہے تو وہ صحابہ کرام کے ایمان وعمل کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے ۔چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ (البقرة: 137) ترجمہ :’’اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں ، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ صحابہ کے ایمان کو معیار بنانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نزول قرآن کا مشاہدہ کرنے والا اولین دستہ ہے ۔ ان