کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 8
پر دلالت کرتی ہے کہ ’’ خاتم ‘‘ سے مراد آخری ہی ہے ۔ نہ کہ مہر ۔
یہ امہات اللغۃ کی کتابیں اس امر کی بیّن شاہد ہیں کہ خاتم کامعنیٰ ’’ آخری ‘‘ہوتاہے اہل لغت کےہاں یہ معنیٰ ایسا معروف ومتداول تھا کہ وہ اس کلمہ کی وضاحت کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کو بطور مثال بیان کرتے تھے ۔
اور تمام کے تمام اہل لغت اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ ’’ ختم ‘‘ سے مراد انتہا ،اور آخر ی ہی مراد ہوتا ہے ۔
اس سے واضح ہوا کہ اگر آیت خاتم النبیین کا ترجمہ جس کی مہر سے نبی بنتے ہیں کیا جائے تو یہ لغت عرب اور محاورات عرب کے سراسر خلاف ہوگا ۔ جس سے یہ بات لازم آئے گی کہ کوئی بھی کہیں بھی جہاں یہ لفظ خاتم آئے اس کا مطلب جس کی مہر سے بنتا ہے کر لے۔ جیسا کہ خاتم القوم کا مطلب یہ کر یں کہ جس کی مہر سے قومیں بنتی ہیں ،خاتم المہاجرین کا یہ کریں کہ جس کی مہر سے مہاجر بنتے ہیں ۔
لفظِ ختم کا اگر معنیٰ مہر کیا جائے تو کیا یہ معنیٰ آخری ہونےپر دلالت نہیں کرتا ؟!
ختم کا لفظ قرآن مجید میں درجِ ذیل آٹھ مقامات پر وارد ہواہے ۔
﴿خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ﴾﴿(البقرة7)
﴿قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِهِ﴾ ( الانعام:46)
﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ﴾﴿( الأحزاب:٤٠)
﴿الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ ﴾( يس:٦٥)
﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَإِنْ يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ﴾( الشورى:﴿٢٤)
﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ ﴾﴿( الجاثية:٢٣)
﴿يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ ﴾﴿( المطففين:٢٥)
﴿خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ ﴾﴿( المطففين:26)
ان تمام آیات میں وارد لفظ ختم کے الفاظ میں یہ قدر مشترک ہے کہ کسی بھی شے کا ایسے بند کردیا جانا کہ اس میں سے کوئی چیز نہ باہر نکالی جاسکے اور نہ کوئی چیز اندر داخل کی جاسکے ۔ جیسے پہلی آیت میں اہل کفر کے