کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 7
’’ ہر چیز کے خاتم سے مراد اس کا انجام اور آخرت ہے ۔ اور خاتم ہر قوم کا آخری فرد ہوتاہے جیسا کہ مہر آخر میں لگتی ہے ۔ اسی معنیٰ میں فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ وخاتم النبیین﴾ یعنی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آخری نبی ہیں ۔‘‘
ابن فارس لغت عرب کے بہت بڑے شہسوار ہیں وہ لکھتے ہیں :
’’(ختم) الخاء والتاء والميم أصلٌ واحد، وهو بُلوغ آخِرِ الشّيء. يقال خَتَمْتُ العَمَل، وخَتم القارئ السُّورة. فأمَّا الخَتْم، وهو الطَّبع على الشَّيء، فذلك من الباب أيضاً؛ لأنّ الطَّبْع على الشيءِ لا يكون إلاّ بعد بلوغ آخِرِه، في الأحراز. والخاتَم مشتقٌّ منه؛ لأنّ به يُختَم، والنبي صلى اللّٰه عليه وسلم خاتِمُ الأنبياء؛ لأنّه آخِرُهم ۔‘‘[1]
’’ختم میں خ ، ت ِ اور میم کا اصل ایک ہی ہے ۔ اور وہ ہے کسی بھی چیز کا اپنی انتہا اور اختتام کو پہنچ جانا ، چنانچہ یوں کہا جاتاہے کہ ‘‘ میں نے اپنا کام ختم کردیا ‘‘ اور قاری نے سورت ختم کردی۔ جبکہ ( ختم ) سے مراد کسی بھی چیز پر مہر لگا دینے کے ہیں ۔ تو یہ بھی اسی قبیل سے ہے کیونکہ کسی بھی چیز پر مہر اس وقت لگائی جاتی ہے جب وہ اپنی انتہا اور اختتام کو پہنچ جائے ، اور خاتم بھی اسی سے مشتق ہے کیونکہ اس کے ساتھ اختتام کیا جاتاہے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ء ہیں ،کیونکہ آپ آخری نبی ہیں ۔‘‘
مفردات قرآن پر لکھی جانےوالی کتب بھی لفظ ’’ خاتم ‘‘ کامطلب ’’ آخری ‘‘ ہی بیان کرتی ہیں ۔
چنانچہ مفردات القرآن کے مؤلف علامہ راغب اصفہانی رقم طراز ہیں :’’خاتمة النبیین أي ختمت النبوة بمجيئه‘‘ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔‘‘
قراءات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جمہور قراء نے لفظِ ’’ خاتم ‘‘ کو ت کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے سوائے حفص اور چند ایک قراء کے جنہوں نے ت کے زبر سے پڑھا ہے ۔ جمہور قراء کی قراءت بھی اس امر
[1] معجم المقاييس لابن فارس ( 2/200 )