کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 29
تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے (یہ حکم دے کر نبیوں سے) پوچھا ؟ کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو؟’’ نبیوں نے جواب دیا : ’’ہم اس کا اقرار کرتے ہیں ‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تو اب تم اس بات پر گواہ رہو اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’فَأَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ أَجْمَعِينَ أَنْ يُؤْمِنُوا بِمُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَيَنْصُرُوهُ إِنْ أَدْرَكُوهُ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَأْخُذُوا بِذَلِكَ الْمِيثَاقِ عَلَى أُمَمِهِمْ۔ ‘‘[1]’’اللہ رب اللعالمین نے تمام انبیاء سے یہ پختہ عہد و پیمان لیا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ، اور اگر ان کا زمانہ پائیں تو ان کی مدد کریں ، اور اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو حکم دیا کہ وہ یہی عہد و پیمان اپنی امتوں سے بھی لیں ۔‘‘ یہی معنی تقریبا تمام مفسرین نے کیا ہے کہ یہاں جس رسول کے متعلق تمام انبیاء سے عہد و پیمان لیا جارہا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے، اس معنی کے تحت اس مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی صراحت کی گئی ہے کہ تمام انبیاء کو بتایا گیا کہ اس رسول نے آپ کے بعد آنا ہے، اور پھر انبیاء کا اپنی امتوں سے عہد و پیمان لینے کا معنی بھی اسی وقت درست ہوگا جب رسول نے اس امت کے بعد آنا ہوگا، ورنہ پہلے گزر چکے رسول کی مدد کا کوئی معنی نہیں بنتا ہے۔ اور یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و مقام کی واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امام الانبیاء ، اور افضل الانبیاء ہیں اور اسی وجہ سے تمام انبیاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خصوصی عہد وپیمان لیا گیا۔
5.تکمیل دین اور اتمام نعمت الہی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کی دلیل ہیں :
9.﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
ترجمہ:’’ آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے۔‘‘(المائدہ: 3)
تکمیل دین ایک ایسی نعمت الٰہی ہے جو کسی امت کو حاصل نہیں ہوئی اور یہ خصوصیت و فضیلت صرف امت محمدیہ کو حاصل ہے کہ ان کا دین ہر لحاظ سے مکمل ہے، اور اب اس میں تاقیامت کسی تبدیلی یا اضافہ کی کوئی
[1] تفسير القرطبي :4/ 125