کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 285
ظاہر کر دی۔ یوں ان کی اسی پسپائی اور رسوائی پر معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ فللّہ الحمد
اس طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو حکومتی ایوان میں مرزائیوں کی دونوں جماعتوں قادیانی اور لاہوری گروہ کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے یہ قرارداد پاس کی گئی:
’’جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مطلقہ پر ایمان نہ رکھے اور آپ کو آخری پیغمبر تسلیم نہ کرے۔ یا جو شخص کسی بھی معنی، کسی بھی شکل اور لفظِ نبوت کی کسی بھی تعبیر کے مطابق نبوت کا مدعی ہو۔ اسی طرح جو شخص کسی بھی ایسے مدعی نبوت پر ایمان لائے یا اسے مجددِ دین سمجھے وہ دستور و قانون کی نگاہ میں غیر مسلم ہے۔‘‘
ہر چند کہ ختمی مرتبت علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد نبوت کے منصب پر براجمان ہونے والے اور اس کے متبعین کی اصل سزا تو وہی ہے جو صدیق اکبر کی خلافت میں مسیلمہ کذاب اور ان کی قوم کو دی گئی تھی، لیکن ہمارے لیے یہ بات بھی غنیمت ہے کہ بین الاقوامی سطح کے سیکولر اور مذہب گریز عالمی اداروں کے طے کردہ نام نہاد بنیادی حقوق کے شور شرابے کے دور میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے نہ صرف مرزا غلام احمد قادیانی پر حضرت نذیر حسین محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے فتوائے تکفیر کو صحیح باور کیا، بلکہ امتِ مسلمہ کی وحدت کو سبوتاژ کرنے والی مرزائی جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والے علامہ اقبال کے مطالبہ کو بھی عملی جامہ پہنا دیا۔ فللّہ الحمد‘‘[1]
سطورِ بالا میں اختصار کے ساتھ ہم نے صرف ۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں حافظ کمیرپوری رحمہ اللہ کی خدمات کا اجمالی تذکرہ ہے، ضرورت تو یہ بھی ہے کہ قادیانی فتنے کی سرکوبی کے علاوہ ان کی دیگر علمی، سیاسی، دعوتی، تعلیمی اور ملی خدمات کا ذکر بھی کیا جائے، لیکن سر دست ہم اسی پہ اکتفا کرتے ہیں اور یہ کام کسی دوسری فرصت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔
اللہ تعالی مرحوم حافظ صاحب اور اس کار عظیم کی ادائی میں شریک دیگر مذہبی و سیاسی قائدین کو اجر جزیل سے نوازے اور روز قیامت اسے شفاعت نبوی کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین
[1] فسانہ قادیان، ص: ۶۲۔۷۵