کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 284
لیے تیار کرتا تھا۔ سکریننگ کمیٹی نے ہماری اجازت سے طے کیا کہ یہ سوال اس معزز ممبر کی طرف سے پیش ہو، اس کارروائی کا منشا یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ ارکان کو جرح کے عمل میں شریک کیا جائے۔ خلیفہ جی اس سوال کا جواب دینے کے لیے ’’الفضل‘‘ کا پہلا شمارہ ساتھ لائے۔ اٹارنی جنرل نے جب ’’الفضل‘‘ کے حوالے یہ سوال کیا تو خلیفہ جی نے اس کا پہلا شمارہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’الفضل‘‘ تو شروع ہی ۱۹۱۴ء میں ہوا تھا، لہٰذا یہ سوال قطعی بے بنیاد ہے جو ’’الفضل‘‘ کا آغاز ۱۹۰۲ء سے پہلے بتا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے سوال واپس لے لیا اور ارکانِ اسمبلی کو صحیح حوالہ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ میرے احباب نے فوراً اس صورتِ حال سے مجھے مطلع کیا۔ میں نے متعلقہ کمیٹی کی وساطت سے قومی اسمبلی کے سیکرٹری اور اٹارنی جنرل تک اصل حوالہ ’’بدر۔ ۲۶ اکتوبر ۱۹۰۲ء‘‘ پہنچایا، پھر دوسرے دن خواجہ صاحب تونسوی کے حوالے سے دوباہ سوال کرنے کی درخواست کی، جو منظور ہوئی۔ اگلے دن کارروائی کے آغاز ہی میں کمال عقل مندی سے کام لیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے خلیفہ جی سے کہا کہ مرزا صاحب! وہ کل والی بات پوری طرح صاف نہیں ہوئی۔ مرزا ناصر نے پوری عیاری سے کام لیتے ہوئے پر اعتماد انداز میں کہا: جناب میں بتا چکا ہوں کہ ۱۹۰۲ء میں ’’الفضل‘‘ تھا ہی نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا: ہو سکتا ہے کہ کسی اور اخبار، رسالے یا کتاب میں یہ عبارت ہو اور فاضل ممبر کو حوالہ لکھنے میں غلطی لگ گئی ہو۔ آپ اپنے پورے لٹریچر سے اس شعر کی نفی کریں ۔ مرزا ناصر نے ایسے ہی کیا اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ جناب یہ ہم پر کھلم کھلا اتہام ہے۔ میں اپنے مکمل لٹریچر میں اس کی نفی کا اظہار کرتا ہوں ۔ اس پر اٹارنی جنرل نے ہمارا پیش کردہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۲ء کا ’’بدر‘‘ نکالا اور بلند آواز سے یہ شعر پڑھتے ہوئے قومی اسمبلی کو ورطہ حیرت اور خلیفہ ربوہ کو بحرِ ندامت میں ڈال دیا، پھر خلیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’مرزا صاحب! یہ بات قطعاً قرین قیاس نہیں کہ یہ حوالہ آپ اور آپ کے معاونین کو معلوم نہ ہو۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ نے ایک مذہبی راہنما ہوتے ہوئے اس معزز ہاؤس میں حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناروا جسارت کی ہے۔‘‘ خلیفہ جی جو سات دن سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی نوعیت میں اس مثالی جرح سے مجروح ہو چکا تھا، آج کی کارروائی سے اتنا بد دل ہوا کہ اس نے مزید سوالات کا جواب دینے سے معذوری