کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 283
پیش نظر ہم یہ ساری تفصیلات تو درج نہیں کر سکتے، شائقین انھیں محولہ بالا کتاب میں ملاحظہ کریں ، البتہ ہم وہ فیصلہ کن سوال اور اس کی روداد حافظ کمیر پوری ہی کے قلم سے پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مرزا ناصر کی مکاری اور دجل و فریب کھل کر سامنے آ گیا اور یوں قادیانی امت اپنے انجام کو پہنچی۔ حافظ کمیرپوری صاحب ’’لاجواب اور فیصلہ کن سوال‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب ’’فسانہ قادیان‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ارکانِ اسمبلی کی طرف سے آخری سوال جس کا جواب مرزا ناصر نہ دے سکا، وہ میرا ہی تحریر کردہ تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ مرزا کی نبوت کو ظلی، بُروزی اور لغوی وغیرہ کہہ کر اس کی شدت اور سنگینی کو کم کرنا چاہتے ہیں ، جب کہ وہ خود اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پلہ بلکہ ان سے اونچی شان کا حامل قرار دیتے ہیں ، جیسا کہ ان کا ایک مرید ان کی زندگی اور ان کی موجودگی میں ان کی مدح و توصیف ان الفاظ میں کرتا ہے: محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیان میں (اخبار البدر ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۲ء) مرزا قادیانی نے اس گستاخ کو نہ ڈانٹا، نہ جھڑکا۔ بلکہ ’’زبانِ مبارک‘‘ سے جزاک اللہ کہا اور فریم شدہ قصیدہ گھر لے گئے۔ مرزا ناصر نہ صرف اس سوال کا جواب نہ دے سکا بلکہ بھری محفل میں اپنی ایک غیر اخلاقی حرکت کی پاداش میں اٹارنی جنرل کی سرزنش کا نشانہ بن گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سکریننگ کمیٹی میں جو چند سوالات ہماری طرف سے پیش کیے گئے، ان میں یہ سوال اپنے صحیح حوالے کے ساتھ شامل تھا۔ یہ سوال کسی اور معزز رکن کی طرف سے بھی آیا تھا، لیکن انھوں نے حوالے میں قادیانیوں کے اخبار ’’بدر‘‘ کی جگہ ’’الفضل‘‘ کا نام لکھ دیا تھا۔ بعض مخفی ذرائع مرزا ناصر کو ہمارے فراہم کردہ ان سوالات سے رات کو آگاہ کر دیتے تھے اور قادیانی علما کا بینچ انھیں جواب کے