کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 281
حکومت نے خود برداشت کیے۔ ۳۰/۴۰ دن کی تحقیق کے نتیجے میں جب سارا مواد اکٹھا ہو گیا تو اگست کے دوسرے ہفتے سے پارلیمنٹ نے اس مسئلے پر باقاعدہ بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ کارروائی خفیہ طریقے سے انجام پاتی رہی۔ اگست ۷۴ء کے اوائل میں قادیانی خلیفہ مرزا ناصر نے اپنی صفائی میں ۱۲۰۰ صفحات کا طویل بیان قومی اسمبلی میں داخل کیا جس میں اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قادیانی گروہ بھی دیگر اسلامی فرقوں کی طرح ایک مذہبی جماعت ہے۔ اس پر تحریک ختم نبوت کے زعما اور اسمبلی کے ممبران نے مرزا ناصر کے بیان پر جرح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس جرح کا اصل مقصد مرزائی کتب کی روشنی میں قادیانیوں کے اصل عقائد کا اظہار اور اس امر کی نشان دہی کرنا تھا کہ مرزا ناصر نے اپنے بیان میں جو کچھ کہا ہے، وہ حقائق کے خلاف اور صداقت کے منافی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک قانونی پیچیدگی یہ تھی کہ اس مکالمے میں صرف ممبرانِ اسمبلی ہی حصہ لے سکتے تھے اور وہ بھی اس طرح کہ اراکینِ اسمبلی جو سوال کرنا چاہیں ، سکریننگ کمیٹی میں پیش کریں اور اس کے ساتھ مرزائی لٹریچر سے وہ عبارت مع حوالہ درج کریں جس کی بنا پر وہ یہ سوال کر رہے ہیں ، پھر کمیٹی کے مطالبے پر اصل کتاب اور دستاویز بھی مہیا کریں ۔ یہ کمیٹی جن سوالات کو معقول اور مدلل خیال کرے گی، وہ اٹارنی جنرل کو فراہم کرے گی اور وہ متعلقہ رکن اسمبلی کے حوالے سے مرزا ناصر سے جواب طلب کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جرح کا یہ طریقہ بڑا پیچیدہ، مشکل اور طویل العمل تھا۔ ایک طرف تو لا علمی کی بدولت ارکانِ اسمبلی سوال کرنے سے قاصر تھے اور دوسری طرف اس کام کے اہل افراد کی وہاں تک رسائی خارج از امکان تھی۔ اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بعض ممبران نے ایسے علما اور لیکچراروں سے رابطہ کیا جن کی پرجوش اور جذباتی خطابت سے وہ متاثر تھے، لیکن جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ حضرات اس کام کے اہل نہیں ۔ کوئی صاحبِ قلم نہیں تو کسی کے پاس متعلقہ لٹریچرنہیں ۔ حافظ ابراہیم کمیر پوری صاحب فرماتے ہیں کہ میں ان دنوں سرگودھا میں مقیم تھا اور علالت کے باعث زیادہ تگ و دو نہیں کر رہا تھا۔ لیکن انہی دنوں رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد سلیمان تونسوی نے خواجہ قمر الدین سیالوی سے عرض کی کہ وہ ہماری راہنمائی کے لیے کسی ایسے صاحبِ علم کا انتظام کریں جو اِن اِن اوصاف کا حامل ہو۔