کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 280
زیر نظر مضمون میں ہم شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریa ہی کے ایک شاگرد اور بلند مرتبت اہلِ حدیث عالم حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری (وفات: ۱۹۸۹ء) کی ان خدمات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں انجام دیں اور حکومتی ایوانوں میں ختم نبوت کے اس عظیم مجاہد نے قادیانی خلیفہ اور اس کے حواریوں کا پامردی سے مقابلہ کیا۔ اس حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مذہبی راہنماؤں کی طرف سے جو کاوشیں بروئے کار آئیں ، ان کا ذکر تو ہم سنتے رہتے ہیں ، لیکن اس مردِ مجاہد کی مساعی چونکہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور کیا اپنے اور کیا بے گانے، سبھی ان کے تذکرے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اس لیے ذیل کی سطور میں ہم تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء میں ان کی جہود پیش کرتے ہیں ۔ ارضِ پاک میں آئینی طور پر اس گروہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی پہلی آواز مولانا محمد حنیف ندوی (وفات: ۱۹۸۷ء) نے ۲ دسمبر ۱۹۴۹ء کو ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں اٹھائی اور اس جماعت کے خلاف پہلی تحریک فروری ۱۹۵۳ء میں برپا ہوئی جس میں دس ہزار اسلامیانِ پاکستان شہید ہوئے۔ دوسری مرتبہ مئی ۱۹۷۴ء میں اس گروہ کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک کا آغاز ہوا جو تین ماہ بعد ثمر آور ہوئی اور اس فرقے کو کافر ڈکلیئر کر دیا گیا۔ ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں کا نشتر کالج ملتان کے طلبا پر تشدد اس تحریک کا نقطہ آغاز بن گیا اور جلد ہی یہ آواز ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر گئی کہ اس حادثے کے مجرم گرفتار کیے جائیں ۔ اس کام کے لیے صمدانی کمیشن کے نام سے ایک انکوائری کمیٹی بنی، لیکن عوام کے احتجاج کی بدولت حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ فیصلہ ہوا کہ قومی اسمبلی میں قادیانیوں کی دینی حیثیت کو زیر بحث لایا جائے اور خلیفہ قادیانی مرزا ناصر کو گفتگو کا موقع دے کر سوال جواب کیے جائیں ، تاکہ اس قضیے کو آئینی طور پر نمٹایا جا سکے۔ حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فسانہ قادیان‘‘ کے آغاز (ص: ۶۲) میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی نے ۳ جون ۱۹۷۴ء سے اس مسئلے کی تحقیق و تفتیش کا سلسلہ شروع کیا اور مکمل آزادی کے ساتھ قادیانیوں کو اپنا موقف اور اس کے دلائل پیش کرنے کی اجازت دی۔ اس سلسلے میں تمام اخراجات بھی