کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 279
7 ستمبر 1974ء کی ’’فتح مبین‘‘ کا ایک گمنام مجاہد حافظ شاہد رفیق۔ گوجرانوالہ[1] انیسویں صدی کے اواخر میں ہندوستان پر قابض غیر ملکی استعمار نے ارضِ قادیان میں جعلی نبوت کا جو پودا کاشت کیا اور اس کی آبیاری کرتا رہا، اس کے آغاز ہی میں علمائے ربانیین اس کی حقیقت آشکار کرنے میں مصروف اور سادہ لوح عوام کو اس کے دام ہم رنگ زمین میں آنے سے بچاتے رہے، جن میں سب سے نمایاں نام ناصر السنہ علامہ محمد حسین بٹالوی (وفات: ۱۹۲۰ء) کا ہے۔ اس عالم بے بدل نے پورے ملک میں اس فتنے کو آشکارہ کیا اور اکابر علما کی تائید سے ۱۸۹۱ء میں ایک فتوائے تکفیر مرتب کیا جس میں متنبیِ قادیان کو دجال اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔بعد ازاں اس فتنے کو شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (وفات: ۱۹۴۸ء) نے منطقی انجام تک پہنچایا اور بالآخر مرزا قادیانی نے ان کے مقابلے میں عاجز آ کر دعا کی کہ جھوٹا سچے کی زندگی مر جائے۔ مرزا قادیانی کی یہ ’’اکلوتی دعا‘‘ تھی جو قبول ہوئی اور اس کے نتیجے میں وہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو جہنم واصل ہوا، جبکہ مولانا امرتسری مرحوم اس کے بعد چالیس سال زندہ رہے اور قادیانی جغادریوں کو ناکوں چنے چبواتے رہے۔ اسی بارے میں مولانا ظفر علی خان (وفات: ۱۹۵۶ء) نے کہا تھا: خدا سمجھائے اس ’’ظالم‘‘ ثناء اللہ کو نہ چھوڑا قبر میں بھی قادیانیت کے بانی کو
[1] مشہور محقق ، فاضل مدینہ یونیورسٹی