کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 276
شامل ہیں ۔اور مرزا قادیانی صاحب میں یہ اعلیٰ اخلاق کس حد تک پائے جاتے تھے،اس کے لیے علیحدہ ایک مضمون درکار ہے۔اور ذرا سی کوشش سے یہ معلومات آپ کو بآسانی حاصل ہوسکتی ہیں کہ مرزا قادیانی کس اخلاق کا مالک تھا۔
معزز قارئین!جس قوم کے نبی میں تمام اخلاقی اقدار مفقود ہوں ،اس کی امت میں وہ اخلاقی اقدار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لہٰذا قادیانی اخلاق سوائے دجل اور مکروفریب کے اور اپنا شکار پھانسنے کے آلہ کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
قادیانی ایک اور چال
’’قادیانی تربیت کیمپوں ‘‘میں اس بات پر بڑی محنت کی جاتی ہے،کہ قادیانی طلبہ مسلمانوں کے ساتھ مرزا قادیانی کے بارے میں کوئی مباحثہ نہ کریں ۔اور صرف ختم نبوت یا حیات ووفات مسیح پر بحث ہو۔اور وہ بھی صرف قرآن سے عام مسلمان طلبہ پر مزید رعب ڈالنے کے لیے قادیانی حضرات عربی زبان کے مباحث میں لاکر حیران اور پریشان کردیں گے۔اور پھر اس پریشان ذہن کو اپنے مرکز میں لیے جانا آسان ہوجاتا ہے۔چند ایک سوال جو عام طور پر مسلمانوں سے کیے جاتے ہیں کچھ اس طریق ہیں :
سوال:قرآن سے دکھادیں کہ نبی نہیں آسکتا ؟
سوال:اگرآپ قرآن سے دکھا دیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ او پر اٹھا ئے گئے تو ہم قادیانیت چھوڑ دیں گے؟
سوال:کیا امام مہدی کے ظہور کا وقت نہیں آیا؟
سوال:اورکبھی کہیں گے کہ عرب مفسرین عربی نہ جانتے تھے انہیں پتہ نہ چلا کہ’’توفی‘‘ کا فاعل خدا اور’’مفعول ذی روح‘‘ ہوتو یہ موت کے معنی میں ہی آتا ہے۔عرب علماء اسے سمجھ نہیں سکے؟
نوجوانوں کو اس قسم کی باتوں میں پھنسا کر پزل کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ مرزا قادیانی کی زندگی اور کردار پر کوئی بات نہ کرسکیں ۔قادیانی گوریلوں کی سب واردات لوگوں کی توجہ مرزا قادیانی کی شخصیت سے ہٹا کر ان مسائل پر لگانے کے لیے ہوتی ہے۔