کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 270
تیسرا مرحلہ
اس خاندان کو پوری طرح شیشے میں اُتارلینے کے بعد اب قادیانی آہستہ آہستہ کھلتا ہے ۔اور سب سے پہلے اپنی مظلومیت کا رونا روتا ہے۔اور مولویوں کو نشانہ بناتا ہے۔کہ مولویوں نے بہت فساد پیدا کر رکھا ہے۔ اور ہر مولوی اپنے مخالفین کو کافر کہتا ہے۔وغیرہ وغیرہ
پھر کہتا ہے کہ دیکھیں جی ہم احمدی لوگ بھی وہی کلمہ وہی نماز وہی روزہ،وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔بھلا ایک کلمہ پڑھنے والاکیسے کافر ہو سکتا ہے؟مگر لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں ۔
ہمارا سادہ لوح مسلمان بھائی فوراً اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ واقعی ایک کلمہ گو کیسے کافر ہوسکتا ہے۔ یہ مولویوں ہی کا فساد لگتا ہے۔اور کبھی کبھار مسلمان ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ اگر آپ بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں اور دوسرے عقائد میں ہمارے ساتھ ہیں تو پھر آخر فرق کیا ہے،جو آپ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ؟
چوتھا مرحلہ
قادیانی اس سوال کے لیے بالکل تیار ہوتے ہیں ۔اور فوراً جواب دیتے ہیں کہ جی بس اتنا فرق ہے کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ امام مہدی نے آنا ہے اور ہم احمدی کہتے ہیں کہ وہ آچکے ہیں ۔اور یہ مولوی لوگ جھوٹ بول کر کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔جبکہ ہم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخاتم النبیین مانتے ہیں بلکہ ہمارے بیعت فارم میں لکھا ہوا ہے کہ ہم اُن کو خاتم النبیین مانتے ہیں ۔
اور ساتھ ہی’’بیعت فارم‘‘اٹھا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ خود پڑھ لیں بھلا اس کی شرائط میں سے کونسی بات قابلِ اعتراض ہے؟
سادہ لوح مسلمان شرائط بیعت پڑھ کر سوچ میں پڑجاتا ہے کہ مولویوں نے تو قادیانیوں کے متعلق کچھ اور ہی بتایاتھا۔اس میں تو کوئی خاص بات نہیں لکھی۔پھر قادیانی کہتا ہےکہ اگر آپ کو اس میں کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔تو اس پر اپنے دستخط کردیں ۔تاکہ آپ بھی ہمای(حق پرست)جماعت میں شامل ہوجائیں ۔اور وہ سادہ لوح مسلمان قادیانی کے زیرِ احسان پہلے ہی ہوتا ہے پوچھتا ہے کیا صرف دستخط کردینا کافی ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ ہاں صرف دستخط کردینا کافی ہے اور اس طرح وہ اس بیعت فارم پر اس کے دستخط