کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 26
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی امتی کے والد نہیں ہیں ، اور یہ نفی بھی اس لئے وضاحت سے کردی گئی تاکہ نبی کا بیٹا نبی ہوتا ہے کا شبہ بھی ختم ہوجائے اور پھر اس معاملہ کو مزید صراحت کے ساتھ بڑے واشگاف الفاظ میں بیان کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوچکا ہے۔
یہاں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الرسل نہیں کہا گیا بلکہ خاتم النبین کہا گیا ، کیونکہ رسول وہ ہوتا ہے جو نئی شریعت یا کتاب کے ساتھ مبعوث ہو ، جبکہ نبی کے لئے نئی شریعت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ، بلکہ وہ گزشتہ شریعت ہی کی اتباع کرتا ہے ، لہذا ہر رسول نبی ہوتا ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا، تو رسول خاص ہے ، اور نبی عام ہیں ، تو جب خاتم النبیین کہا گیا تو اس سے رسولوں کا اختتام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہونا ثابت ہوا۔
خاتم اگر’’ت‘‘ پر زبر کے ساتھ پڑھیں تو معنی ہوگا’’آخر‘‘ یعنی آپ آخری نبی ہیں ، اور اگر’’ت‘‘ پر زیر کے ساتھ پڑھا جائے جیسا کہ بعض قراءات میں پڑھا جاتا ہے تو اس کا معنی ہوگا ’’ختم کرنے والا ‘‘ یعنی انبیاء کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔
2.آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کے انبیاء پر ایمان لانے کا ذکر:
2.﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴾(البقرة: 4)
’’نیز وہ آپ کی طرف نازل شدہ (وحی) پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے (نبیوں پر) اتاری گئی تھی، اور وہ آخرت (کے دن) پر یقین رکھتے ہیں ۔‘‘
3.﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ﴾(ا لبقرة: 136)
(مسلمانو) ! تم اہل کتاب سے یوں کہو کہ : ’’ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا ہے اور اس پر بھی جو حضرت ابراہیم اسماعیل اسحاق یعقوب اور ان کی اولاد پر اتارا گیا تھا۔ اور اس وحی و ہدایت پر بھی جو موسیٰ عیسیٰ اور دوسرے انبیاء کو ان کے پروردگار کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان انبیاء میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ہم تو اسی (ایک اللہ) کے فرمانبردار ہیں ۔‘‘