کتاب: البیان شمارہ 23 - صفحہ 10
کی تربیت سیّدالاولین والآخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی ۔ وہ تمام جہانوں کے سردار نبی کے شاگرد تھے ۔ ا ن کا تزکیہ رب اللعالمین نے اپنے کلامِ مجید میں فرمایا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی امت کا امین قرار دیاہے ۔ وہ دین کے اولین ناقل وراوی ہیں ۔ قرآن اور حدیث ہمیں ان کے ذریعے سے ملا ہے ۔ ان تمام فضائل ومناقب کے ہوتے ہوئے یہ امر مستحیل عقلاََ وشرعاََ ہے کہ ایمانیات واعمال سے متعلق کوئی ایسی چیز ان سے پوشیدہ رہ گئی ہو اور کسی آیت کا وہ معنیٰ نہ سمجھ سکے ہوں ۔ اگر ایک کو پتا نہ ہوتا تھا تو دوسرے کو معلوم ہوتا تھا ۔ تو اب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ختم نبوت کا کیا معنیٰ سمجھتے تھے کیا وہ ختم سے مراد مہر جس سے نبی بنتے ہیں لیتے تھے ،یا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبوت کے دعویدار کو کافر سمجھتے تھے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو نہ ماننے والے سےاعلان جنگ کیا کرتے تھے ۔ حبر الا ٔمة سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ يريد لو لم أختم به النبيين لجعلت له ابنا يكون بعده نبيا ‘‘[1] ’’اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے فرمایا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ بناتا تو انہیں ایسا بیٹا دیتا جو بڑا ہوکر نبی بنتا۔ ‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد میں سے کوئی سن بلوغت کو نہ پہنچا اس لئے کہ لوگ کہیں یہ تصور نہ کرلیں کہ نبی کا بیٹا چونکہ نبی ہوتاہے لہٰذا وہ بھی نبی ہوسکتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولادکو بچپن میں ہی وفات دے دی ۔ ایک اور روایت میں عطاء رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ’’ أن الله تعالىٰ لما حكم أن لا نبي بعده لم يعطه ولدًا ذكرًا يصير رجلاً ( وكان الله بكل شيئ عليما )‘‘ [2] ’’ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تو رب تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
[1] زاد المسیر ج6ص 393 [2] معالم التنزیل : ج 6ص 359