کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 99
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری پانچ سالہ زمانہ ایسا ہے جب کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے حجرات آباد ہوئے۔اس لیے اب ہرشخص غور کرسکتا ہےکہ اس کےوہ خاص اسباب کیا تھے۔خصوصا جبکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمادیا ہوکہ مَالِي في النساء من حَاجةٍ ’’مجھے عورتوں کی کوئی حاجت نہیں ۔‘‘[1] حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ نکاح کسی خواہش نفسانی کی بنا پر نہ تھے جیسا کہ بعض مستشرق اور لادین عناصر کہا کرتے ہیں ۔ بلکہ آپ کے نکاح بڑےمصالح اور منافع رکھتے تھے۔غورکرنے سےآپ کے کثرتِ ازدواج کے متعدد مصالح سامنے آتے ہیں ،مثلاً: 1.بیوہ عورتوں کی اشک شوئی اور دل جوئی پیش نظر تھی۔اور بیوگان کے نکاح میں خواہ مخواہ کی رکاوٹ کو دور کرکے انہیں اذیت ناک زندگی سے نجات دلانا مطلوب تھا۔ 2.عورتوں کو ممتاز مقام عطا کرنے کی خواہش تھی۔ 3.عورتوں میں اسلام کی تبلیغ واشاعت مطلوب تھی۔ 4. مختلف قبائل سے مراسم بڑھانا مقصود تھا۔اور ان سے دشمنیاں دورکرنے کا راز مضمر تھا۔ 5. امت کو بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا عملی نمونہ پیش کرنا تھا۔
[1] صحیح البخاری ،فضائل القرآن،باب خیر کم من تعلم القرآن،حدیث:5029، اس روایت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک خاتون نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی:میں اپنا آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر سے نیچے تک اسے دیکھا مگر کوئی جواب نہ دیا وہ بیٹھ گئی۔(صحیح بخاری،حدیث:5087)دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے،اس سیاق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت نہیں بلکہ یہ تھاکہ اس جیسی خواتین کی ضرورت نہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپرسے نیچے تک اسے دیکھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آجاتی تو آپ اس سے نکاح کرلیتے۔لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اس طرح کی ہوں تو مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے(فتح الباری:9/249)ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجھے آج کل عورتوں کی ضرورت نہیں۔اس کی تائید صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں موجود ان الفاظ سے ہوتی ہے’مالی الیوم فی النساء حاجۃ‘ دارالسلام کی مطبوع فتح الباری میں بھی یہی الفاظ ہیں۔جن کا مطلب ہے کہ مجھے آج کل خواتین کی ضرورت نہیں ہے۔(ن۔ف)