کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 89
٭ باغوں اور کھیتوں کو خراب نہ کرنا۔[1]
٭ جب وہ( مسلمان ہو جائیں اور)زکوٰۃ اور صدقہ دے دیں تو ان کے باقی مال سے تعرض نہ کرنا۔
٭ اور ان کی زکوٰۃ اور صدقات کو انہی کے امراء سے لےکر غرباء میں تقسیم کردینا۔[2]
کیادنیا میں کوئی اس قسم کا فاتح گزرا ہےجس نے اپنی فوج کو اس طرح کی ہدایات دی ہوں ؟اور دنیا میں امن وامان قائم کرنے کی خاطر ملک فتح کیا ہو؟
یقیناً نہیں ،اس سلسلے میں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔( صلی اللہ علیہ وسلم )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیدیوں سے سلوک
ایک دوسری چیز جو کسی فاتح میں خصوصیت سے دیکھنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ اس کا سلوک فوجی قیدیوں کے ساتھ کیسا رہا۔یعنی مخالفین کے جو لوگ اثنائے جنگ میں قید ہو گئے،یا بعد فتح بحیثیت قیدی اسیر ہوئے،ان کے ساتھ وہ فاتح کس طرح پیش آتا رہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا جس قدر فاتحین اس وقت ہمارے سامنے ہیں ان میں سے ایک بھی ہمیں نظر نہیں آتا جو قیدیوں سے بحسن سلوک پیش آیا ہو۔اور اس نے ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا ہو۔اور بلا چووچرا انہیں معاف کردیا ہو،بلکہ تاریخ بتاتی ہےکہ جو سب سے بڑے فاتح تھے وہ دشمن کے ساتھ سب سے زیادہ سختی کرتے رہےاور قیدیوں پر مظالم ڈھاتے رہے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارتے رہے اور علاقوں کے علاقے فنا کرتے رہے۔
قیدیوں کے بارے میں دنیا کا دستور
خود عرب کا یہ دستور تھا کہ اسیران جنگ کو بے دریغ قتل کردیا جاتا تھا۔اور دوران جنگ وہ حرکتیں کی جاتیں کہ انسانیت کو شرم آتی تھی۔
[1] موطا امام مالک،2/447-448،موفوقاً عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ
[2] صحیح البخاری،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکاۃ،حدیث:1395،وصحیح مسلم،الأیمان،باب الدعا إلی الشھادتین،حدیث:19