کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 86
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو عام وحشی جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔[1] ہندہ جس نےچچا مرحوم کا گوشت چبایا تھا۔[2] ہبار جس نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا (بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نیزہ مارا اور حمل گرادیا تھا۔[3] سب کو معاف کردیے گئے۔ وہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ جو ابو جہل اور ابو لہب کے دوش بدوش 20 سال سے اسلام اور داعی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ونشان صفحہ ہستی سے مٹادینے پر تلا ہوا تھا،جب مع اپنے دیگررفقاءوسردارانِ قریش کے پابہ جولاں حاضر ہوکر معافی چاہتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے ہیں : ’’آج تم مجھ سے کیا امید رکھ سکتے ہو؟‘‘ سب بہ یک زبان جواب دیتے کہ ہمارے جرم ہمارے سامنے ہیں ،ہم نے جو جو سلوک آپ سے روا رکھے سب یاد ہیں ،اب جو سزا آپ چاہیں ہمیں دے سکتے ہیں ،مگر سنا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حضرت علیہ السلام سے کہا تھا: ﴿تَاللّٰہ لَقَدْ آثَرَكَ اللّٰہ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ﴾ ’’اللہ کی قسم! بے شک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور یقیناً ہم خطاکار اور قصوروار ہیں ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا:جاؤ میں بھی حضرت یوسف رضی اللہ عنہ ہی کی طرح کہتا ہوں : لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ، يَغْفِرُ اللّٰہ لَكُمْ وَہوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ [4]
[1] صحیح البخاری،المغازی،باب قتل حمزۃ بن عبدالمطلب،حدیث:4072 [2] صحیح البخاری،المغازی،باب قتل حمزۃ بن عبدالمطلب،حدیث:4072،والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام:2/498 وفتح الباری:7/352 [3] الرحیق المختوم،ص:553 [4] تفسیر در منثور:3/34۔واتحاف السعادۃ للمتقین:8/41