کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 35
استغفار پر ہوا کرتا۔قرآن مجید اس خطبہ میں ضرور ہوتا اور قواعد اسلام کی تعلیم اس خطبہ میں دی جایاکرتی تھی۔
’وكان يخطُب في كل وقت بما تقتضيہ حاجةُ المخاطَبين ومصلحتھم‘[1]
’’خطبہ میں وہ باتیں ضرور بیان کی جاتی تھیں جن کی سردست ضرورت ہوتی اور وقت کے اعتبار سے خطبہ میں سب کچھ بیان ہوا کرتا۔‘‘
ایسے خطبات جمعہ کے دن ہی پر موقوف نہ ہوتے،بلکہ جب ضرورت اور موقع ہوتا تب ہی لوگوں کو کلام پاک سے مستفید فرمایا کرتے تھے۔
خطبہ کے وقت ہاتھ میں کبھی عصا،کبھی کمان،ان پر اثنائے تقریر میں ٹیک بھی لگالیا کرتے تھے۔خطبہ کے وقت تلوار کبھی ہاتھ میں نہ ہوتی تھی۔نہ اس پر ٹیک لگایا کرتے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’جاہلوں کا قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرتلوار لے کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔گویا اشارہ یہ تھا کہ دین بزور شمشیر قائم کیا گیا ہے۔‘‘علامہ موصوف فرماتے ہیں جاہلوں کا یہ قول غلط ہے۔
1. تلوار پر خطبہ میں ٹیک لگانا ثابت نہیں ۔
2. خطبہ خوانی کا آغاز مدینہ میں ہوا تھا اور مدینہ بذریعہ قرآن فتح ہوا تھا نہ کہ بذریعہ شمشیر،پھر علامہ موصوف یہ فرماتے ہیں کہ دین تو وحی سے قائم ہوا ہے۔[2]
صدقہ وہدیہ
صدقہ کی کوئی چیز ہرگز استعمال نہ کرتے۔البتہ ہدیہ قبول فرماتے:
مخلصین صحابہ رضی اللہ عنہم نیز عیسائی اور یہودی جو چیزیں تحفۃً بھیجتے انہیں قبول فرمالیتے۔ان کے لیے خود بھی تحفے ارسال فرماتے۔مگر مشرکین کے ہدایا لینے سے انکار فرماتے۔
مقوقس متی شاہ مصر کے بھیجے ہوئے خچر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری فرمائی اور جنگ حنین کے دن وہی خچر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری میں تھا۔لیکن عامر بن مالک کے بھیجے ہوئے گھوڑے کو قبول کرنے سے انکار
[1] زادالمعاد، جلد:1،ص:49
[2] زادالمعاد، جلد:1،ص:49